ایک مشہور بزرگ حضرت مولانا مظفر حسین کاندھلویؒ گزرے ہیں، وہ اکثر پیدل سفر کرتے تھے اور جہاں شام ہوتی تھی، وہیں رات گزار لیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ وہ جلال آباد یا شاملی کی طرف گئے، آپ نے مسجد میں جھاڑو دی، پھر کافی دیر انتظار کرتے رہے، مگر کوئی بھی شخص نماز کیلئے نہ آیا تو آپ کو تعجب ہوا کہ مسلمانوں کی بستی ہے اور کوئی بھی نماز کے لیے نہیں آیا۔
نماز سے فارغ ہوکر اس بارے میں ایک شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ سامنے خان صاحب کا مکان ہے اور وہ شرابی اور حرام کاری کا شوقین ہے۔ اگر وہ دین کی طرف آئے اور نماز پڑھنے لگے تو دوسرے لوگوں پر بھی اثر ہوگا۔ کیوں کہ لوگ اپنے بڑوں کے دین کے تابع ہوتے ہیں، وہ اگر درست ہو جائیں تو نیچے والوں پر بھی ضرور اثر ہوگا۔ آپ بلا کسی تکلف کے ان خان صاحب کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت ان کے پاس بازاری عورت بیٹھی ہوئی تھی اور وہ نشہ میں مست تھے۔
آپ نے خان صاحب سے فرمایا کہ خدا کے بندے! اگر تم نماز پڑھ لیا کرو تو کچھ دوسرے لوگ بھی نماز پڑھنے لگیں گے اور رب تعالیٰ کا یہ گھر آباد ہوجائے گا۔ خان صاحب نے کہا کہ ایک تو مجھ سے وضو نہیں ہوتا اور دوسرے یہ دونوں بری عادتیں ہی مجھ سے نہیں چھوٹتیں۔ آپ پہلے تو اسے سمجھاتے رہے، پھر ایک تدبیر کے طور پر آپ نے فرمایا کہ وضو کے بغیر وہی پڑھ لیا کرو اور شراب بھی پی لیا کرو۔
آپ نے خان صاحب کے لیے شراب کو جائز قرار نہیں دے دیا تھا، بلکہ حکمتاً اسے اجازت دے دی۔ آپ کو یقین تھا کہ اس کی زندگی بدلے گی اور وہ شراب جیسی نجاست کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ خان صاحب نے وعدہ کرلیا کہ اچھا میں نماز پڑھ لیا کروں گا۔ آپ وہاں سے تشریف لے گئے اور کچھ فاصلے پر نماز پڑھی اور سجدے میں خوب روئے۔
ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت آج آپ سے دو ایسی باتیں سرزد ہوئی ہیں جو کبھی نہیں ہوئیں۔ پہلی یہ کہ آپ نے شراب اور زنا کی رخصت دیدی، دوسری یہ کہ آپ سجدے میں بہت روئے۔ آپ نے پہلی بات کا جواب نہ دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یوں کہتے کہ خان صاحب شراب اور زنا چھوڑ کر زاہد وپارسا بن جائیں گے تو یہ ایک قسم کا دعویٰ ہوتا اور بزرگوں پر تواضع کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے دعوے پسند نہیں کرتے۔ البتہ دوسرے سوال کا جواب یہ دیا کہ میں نے سجدے میں حق تعالیٰ سے التجا کی تھی کہ اے رب العزت! میں نے اسے تیرے دربار میں کھڑا کردیا، اب اس کا دل بدلنا تیرے ہاتھ میں ہے۔
ادھر خان صاحب کا حال یہ ہوا کہ جب وہ عورتیں ان کے پاس سے چلی گئیں تو نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ انہیں اپنا وعدہ یاد آگیا کہ مجھے تو مسجد میں جانا ہے اور اگرچہ مولانا سے تو ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانے کی اجازت مانگ رہے تھے، مگر دل نے ملامت کی ہوگی کہ آج پہلی بار خدا کے گھر میں جارہے ہو، آج بھی ناپاک ہی جاؤ گے، آج تو پاک ہوکر جاؤ۔
چنانچہ غسل کیا۔ پاک کپڑے پہنے اور نماز پڑھی، نماز کے بعد باغ کی طرف چلے گئے، عصر اور مغرب اسی وضو سے پڑھی، نماز مغرب کے بعد کھانا کھانے کے لیے گھر میں گئے۔ اچانک بیوی پر جو نظر پڑی تو فریفتہ ہوگئے۔ ان کی شادی کو سات سال ہوگئے تھے، آج تک نہ کبھی بیوی کے پاس گئے تھے اور ان اس کی صورت دیکھی تھی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بعض لوگوں کو حرام کا چسکا لگا جاتا ہے اور انہیں حلال میں مزہ نہیں آتا اور جسے حلال کا چسکا لگ جائے، وہ کبھی حرام کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ہر انسان کا ضمیر اسے برائی پر ملامت کرتا ہے، مگر انسان اسے تھپک تھپک کر سلا دیتا ہے۔ کبھی کبھار کسی ٹھوکر سے، کسی واقعہ سے کسی دل میں اتر جانے والے جملے سے سویا ہوا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے اور جب ضمیر بیدار ہو جائے، ایمانی حس جاگ اٹھے، انسانیت انگڑائیاں لینے لگے تو انسان کی زندگی کا رخ بدل جاتا ہے۔
خان صاحب نے آج جب بیوی کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ ضمیر نے ملامت کی، تیرے گھر میں حور بیٹھی ہے اور تو کیسا بد نصیب ہے کہ گندی عورتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ فوراً باہر آئے اور ان عورتوں سے کہہ دیا کہ آئندہ میرے مکان پر نہ آنا۔ کہا جاتا ہے کہ ان خان صاحب کی پچیس سال تک تہجد کی نماز قضا نہیں ہوئی۔ (یہ واقعہ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھیؒ نے تذکرۃ الخلیل میں لکھا ہے)
٭٭٭٭٭