حضرت جابرؓ لکھ پتی صحابہؓ میں سے ہیں، ایک دن گھر میں تشریف لائے تو اہلیہ محترمہ نے دیکھاکہ کچھ غمگین اور اداس ہیں، پوچھا کہ آج آپ اداس کیوں ہیں؟ فرمایا کہ خزانے میں روپیہ زیادہ جمع ہو گیا ہے، دل کے اوپر بوجھ پڑ رہا ہے کہ اتنی خرافات کہاں میرے سر پر لد گئی… اس کی وجہ سے غمگینی ہے، بیوی بھی صحابیہ تھیں، انہوں نے کہا کہ پھر غم کی کیا بات ہے،خدا کے نام پر غرباء کوتقسیم کر دو… بس تشریف لے گئے اور خزانچی کو بلا کر حکم دیا کہ غرباء میں روپیہ تقسیم کیا جائے، یتیموں اور بیوائوں کی مدد کی جائے، تمام رات مدینہ کی گلیوں میں روپیہ تقسیم ہوتا رہا، صبح کو جو حساب لگایا تو رات بھر میں چھ لاکھ روپیہ تقسیم ہوا، صبح کو گھر پہنچے، بہت ہشاش بشاش بیوی کے ہاتھ چومے اور کہا کہ بہت عمدہ تدبیر بتلائی تھی، میرا دل ہلکا ہو گیا تو پہلے یہ کیفیت تھی کہ ان کا دل ہلکا ہوتا تھا، جب دولت زیادہ ہوتی تھی یا آج ہلکا ہونے لگا جب دولت ختم ہو جائے، یہ کایا پلٹ نہیں تھی تو اور کیا تھا، انقلاب نہیں تھا تو اور کیا تھا۔ (خطبات طیب)
بچوں پر شفقت !
حضرت ابو عثمان نہدیؒ فرماتے ہیں: حضرت عمرؓ نے قبیلہ بنو اسد کے ایک آدمی کو ایک کام کا امیر مقرر کیا، وہ حضرت عمرؓ کے پاس تقرر نامہ لینے آئے، اتنے میں حضرت عمر ؓ کا ایک بچہ ان کے پاس لایا گیا، حضرت عمرؓ نے اس بچہ کا بوسہ لیا، اس اسدی نے کہا: اےامیر المومنین! آپؓ اس بچے کا بوسہ لے رہے ہیں! خدا کی قسم! میں نے آج تک کبھی کسی بچہ کا بوسہ نہیں لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: (جب تمہارے دل میں بچوں کے بارے میں شفقت نہیں ہے) پھر توخداکی قسم! دوسرے لوگوں کے بارے میں شفقت اور کم ہو گی۔ لائو ہمارا تقرر نامہ واپس دے دو، آئندہ تم میری طرف سے کبھی امیر نہ بننا اور حضرت عمرؓ نے اسے امارت سے ہٹا دیا۔
امام مالکؒ کی احتیاط
امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت فتویٰ دینا شروع کیا جب 70 جید علماء نے میری اہلیت کی گواہی دی، آپؒ مسئلہ بتانے میں اس قدر محتاط تھے کہ جب تک مسئلہ میں کامل شرح صدر نہ ہوتا جواب دینے سے انکار فرماتے، چنانچہ ایک مرتبہ امام مالکؒ سے 48 مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا، تو 32 مسائل میں فرمایا: میں نہیں جانتا۔ حضرت خالد بن خداشؒ فرماتے ہیں کہ میں نے 40 مسائل کے بارے میں امام سے سوال کیا تو انہوں نے صرف 5 مسائل کا جواب دیا، باقی کے بارے میں فرمایا: میں نہیں جانتا۔
٭٭٭٭٭