حاجی مانکؒ کہتے ہیں کہ میں نے اس گستاخ کو ختم کیا، میرے کپڑے اس کے خون سے خون آلود ہو گئے۔ پلید خون سے مرتد کے خون سے نفرت آرہی تھی، بدبو آرہی تھی، میں نے سیدھا تھانے چلا گیا، قریب تھانہ تھا۔ تھانیدار نے مجھے دیکھا کہ سر پر پگڑی نہیں، ہاتھ میں کلہاڑی ہے، کپڑے خون سے بھرے ہوئے ہیں، وہ تھانیدار مجھے جانتا تھا، میں شریف آدمیوں میں شمار ہوتا تھا، میں کبھی کبھی مسجد میں اذان بھی دیتا تھا۔
تھانیدار نے کہا: مانک خیر ہے؟ میں نے کہا کل جس کتے نے، جس مرتد نے، جس لعین نے، جس گستاخ نے گستاخی کی تھی، خدا کا شکر کہ آج وہ زبان خاموش ہو چکی ہے۔ اس کے خون کو کتے چاٹ رہے ہیں۔ مجھے ہتھکڑی لگاؤ، مجھے گرفتار کرو۔ تھانیدار خود کانپنے لگا، رونے لگا، اپنی ٹوپی اتارکر میرے پاؤں میں ڈال دی، کہنے لگا میں تجھے گرفتار کرکے محمد عربیؐ کی شفاعت سے محروم ہو جاؤں؟
حاجی مانکؒ تھانے میں بیٹھے ہیں۔ پولیس والے دوڑ دوڑ کر ان کے لیے دودھ لارہے ہیں، رو رہے ہیں، کہتے ہیں ہم سے وہ کارنامہ نہ ہو سکا، جو ایک بوڑھے نے کردیا ہے۔ حاجی مانک! ہم تجھے مجرم کہیں یا مصطفیؐ کا عاشق کہیں، ہم تجھے ہتھکڑی لگا کر کل آقاؐ کے سامنے شرمندہ ہو جائیں؟
تھانیدار نے قطعیت سے کہا کہ میں حکومت کو پٹی اتار کر دے دوں گا، مگر تجھے گرفتار کرکے محمدؐ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوگا۔ میں اوپر اطلاع دیتا ہوں، مانک تو میرا مہمان ہے، وہ قاتل نہیں، وہ تو نبیؐ کا عاشق ہے۔
حاجی مانک صاحبؒ کا کہنا ہے کہ گستاخ کا کام تمام کرنے کے بعد میں نے گرفتاری دیدی اور جب میں حیدر آباد جیل گیا، تو حضور اقدسؐ کی خواب میں زیارت ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: بیٹے گھبرانا نہیں، تو پھانسی کے تختے پر چڑھا تو تیری شہادت کی موت ہوگی۔
حاجی مانک کہتے ہیں: انہوں نے میری بڑی خدمت کی۔ سکھر پولیس کو اطلاع دی، وہ بھی آئی، لیکن میرے قریب کوئی نہیں آیا۔ مجھے کہا کہ کار میں بیٹھ جاؤں، وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ کہنے لگے ہم عورتوں کو پکڑتے ہیں، آج تک ہم نے ڈاکو پکڑے، آج تک ہم نے چور پکڑے ہیں، آج اس کو لے جار ہے ہیں، جس کے دل میں نبی پاکؐ کی محبت ہے۔
مانک کہتے ہیں کہ میں سکھر جیل میں گیا تو تمام ڈاکو اور قاتل اکٹھے ہوگئے۔ مجھے دیکھ کر رونے لگے۔ کوئی کہنے لگا: میں نے ماں کو قتل کیا، دوسرے نے کہا: میں نے بہن کو قتل کیا، ایک نے کہا: میں نے باپ کو قتل کیا، مانک! تیری قسمت کا کیا کہنا، مصطفیؐ کے دشمن کو قتل کرکے آیا ہے۔ وہ رونے لگے اور کہنے لگے جیل تو یہ ہے کہ جس سے خدا بھی راضی ہے، مصطفیٰ بھی راضی ہیں۔ کوئی دودھ لارہا ہے اور کوئی فروٹ لا رہا ہے۔ پتہ چلا تو محمد علی جالندھریؒ وہاں پہنچے۔ مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ وہاں پہنچے۔ قاضی صاحب روتے رہے۔ فرمایا: ہم تیری زیارت کے لیے آئے ہیں۔ میں (مولانا دین پوریؒ) خود وہاں پہنچا، علما وہاں پہنچے، مولانا امروٹی وہاں پہنچے، کراچی سے لاہور تک لوگ حاجی مانک کو دیکھنے آئے، جنہوں نے اپنے بڑھاپے میں جوانی دکھائی تھی۔
٭٭٭٭٭