شہید کا مسکراتا چہرہ

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کا کہنا ہے کہ تدفین کے تمام مراحل طے ہو چکے اور لوگ قبرستان سے واپس ہوئے تو میں نے جنازے میں شریک ایک سوگوار سے پوچھا … جناب! یہ چاند سے چہرے والا نوجوان کون تھا، جس کی ابھی تدفین ہوئی ہے؟ اس نے بتایا یہ بی اے کا طالب علم تھا، راولپنڈی سے اپنے چچا کے ہاں قبائلی علاقہ میں گیا ہوا تھا کہ دہشت گردوں کے ایک حملے میں چند افراد کو بچاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
اس نے بتایا نمازی، پرہیزگار اور انتہائی نیک بچہ تھا۔ والدین کی تابع فرمانی میں اس کی مثال دی جاتی تھی۔ میں نے کہا: اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہید ہے اور خدائے کریم نے اسے بہت بڑا انعام دیا ہے۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ میرے منہ سے یہ بات سن کر وہ شخص بولا: میں اس نوجوان کا رشتے میں چچا لگتا ہوں اور مجھے بھی اس کی شہادت پر فخر ہے۔
وہ دن اور آج کا دن، میں اس نوجوان شہید کا چہرہ نہیں بھولا۔ میری نظروں کے سامنے وہ ہمہ وقت مسکراتا رہتا ہے۔ خواب میں بھی اسے ہنستے مسکراتے، ہشاش بشاس اور کھاتے پیتے دیکھ چکا ہوں۔ وہ میرے ایمان کی ٹھنڈک بن گیا ہے۔ میں نے خدا سے کئی دعائیں اس کے توسط سے کیں جو قبول ہوئیں۔ اس کے ساتھ میرا رشتہ کلمہ طیبہ کے حوالے سے ہے اور یہ بہت ہی اٹوٹ انگ رشتہ ہے۔ میں اپنی روحانی وارداتیں کسی سے چھپایا نہیں کرتا۔
میرے ایمان و ایقان کو کہکشاں کی روشنی عطا کرنے والا دوسرا نوجوان شہید فوجی افسر اٹک کا اسفندیار ہے۔ سانحہ بڈھ بیر میں شہادت پانے کے بعد جب میں نے اس کی تصویر اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھی تو مجھے یہ نوجوان بھی بالکل اپنا اور دیکھا بھالا لگا۔ اس کی بہادری، شجاعت اور پروقار شہادت نے بھی میرے دل کے دریچوں میں کہکشاں بکھیر دی۔ اس شہید کی تدفین کا منظر میں نے بھیگی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھا۔ اس سمے میری دلی کیفیات سنبھالے نہ سنبھلتی تھیں۔
اس کی تصویر آج تک میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی۔ یہ بھی اک چاند تھا جو زمین پر اترا اور اپنی روشنی بکھیر کر واپس جنت الفردوس میں چلا گیا۔ شہید اسفند یار کی تدفین سے اگلی رات اسے بھی میں نے خواب میں مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے مجھے اپنی تصویر دے رہا ہے۔ میں اسے کچھ پوچھتا ہوں، مگر وہ جواب دینے کے بجائے مسکرا دیتا ہے۔ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔ خواب سے بیدار ہونے کے بعد تہجد کا وقت تھا۔ میں نے اس کیلئے بہت دعائیں کیں۔ اس کے ماں باپ اور اہل خانہ کیلئے بھی۔ سوچتا رہا اس نے مجھے اپنی تصویر کیوں دی؟ پھر مجھے قرآن کی آیت یاد آ گئی:
ترجمہ: ’’پاک ہے وہ ذات جو بناتی ہے تصویریں بیچ ماں کے بطن میں جس طرح چاہے‘‘۔
ہاں وہ اپنی تصویر سے بھی خوبصورت نوجوان تھا۔ چاند سے مکھڑے والا جو اس پاک دھرتی پر نچھاور ہو گیا۔ اس جیسے بے شمار چاند اپنے وطن کی عزت و آبرو پر جان وار گئے۔ ان سب نوجوانوں اور بچوں کو ہمارا سلام پہنچے۔ اسفندیار شہید کیلئے جنت کی حوریں آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں۔ خدا کے پاس اسے انعام دینے کو بہت کچھ ہے۔ (بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment