وزیر خانم کو دربدری کے خدشات نے گھیر لیا تھا

وزیر خانم سن ہوکر رہ گئی۔ صاف ظاہر تھا کہ اس کے خلاف کوئی سازش ترتیب دی جا رہی ہے۔ یا پھر نواب زینت محل کے کان جھوٹ سے بھر دیئے گئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک تھا۔ قلعے سے وزیر خانم اور اس کی اولاد کا اخراج۔ وزیر نے گہری سانس لے کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی، پھر کہا:
’’ملکۂ عالیہ ذرا یہ تو غور فرما لیتیں کہ مرزا مغل بہادر مجھ نکمی بیوہ کی مدد سے کیا سازش برپا کر سکتے ہیں۔ پھر مرزا ابوبکر بہادر کے ہوتے بچارہ خورشید مرزا کس شمار و قطار میں ہے؟‘‘۔
’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہی تو تم لوگوں کی چالیں ہیں۔ مرزا ابوبکر بہادر بے ماں کا تھا، اب بے باپ کا بھی ہوگیا۔ اسے کسی طور بہلا پھسلا لیا جائے گا‘‘۔
’’اللہ رکھے مرزا ابوبکر بہادر جوان ہیں، ذی علم اور ذی لیاقت ہیں…‘‘۔
’’ہمارے سامنے ہماری اولادوں کا بکھان نہ کرو چھوٹی بیگم۔ مرزا ابوبکر بہادر کی خوبیاں ہم پر عیاں ہیں۔ لیکن ان کا مرزا مغل بہادر سے خلا ملا بھی کچھ پوشیدہ نہیں ہے‘‘۔
’’سرکار مالک ہیں۔ لیکن مجھے مہابلی کی خدمت میں ایک بار پیش ہو لینے دیجئے۔ میں اپنی بے قصوری تو ان پر ظاہر کر دوں‘‘۔
’’حضور پُرنور پر سب کچھ ظاہر ہے۔ یہ انہیں کا فیصلہ ہے کہ تم دو دن کے اندر اندر حویلی خالی کر دو۔ خورشید مرزا کو بھی اپنے ساتھ لے جائو۔ اور مرزا ابوبکر بہادر کو بھی، اگر وہ جانا چاہیں‘‘۔ زینت محل نے سرد لہجے میں کہا۔
وزیر ایک بار پھر سناٹے میں آگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ زینت محل اس طرح ٹکڑا سا توڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دیں گی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ بہت سے بہت یہ ہو گا کہ مرزا فخرو بہادر کی ڈیوڑھی اس سے خالی کرا لی جائے گی اور کسی کونے کھدرے میں ایک دو حجرے اسے مل جائیں گے۔ نواب مرزا کی تنخواہ موقوف ہو جائے گی اور اس کی بھی اپنی تنخواہ بہت کم کر دی جائے گی۔ خورشید مرزا کی تعلیم تربیت سب ختم کر دی جائے گی۔ لیکن قلعے سے باہر نکلنا، یہ اس نے اپنے بدترین خوابوں میں بھی خیال نہ کیا تھا۔ اب جو یہ قیامت اس کے سر پر تھی تو اس نے دل پر قابو پانے اور اپنے حواس کو مجتمع کرنے کی کوشش کی۔یہ بات تو اس پر بالکل عیاں تھی کہ زینت محل کے فیصلے کے خلاف جدوجہد یا احتجاج کرنا بیکار تھا، بلکہ مزید خرابی و ذلت کا بھی سبب بن سکتا تھا۔ بادشاہ کے یہاں باریابی ناممکن تھی۔ لیکن اگر وہ باریاب ہو بھی جاتی تو بادشاہ اب اکیاسی برس کے ہو چکے تھے، وہ اگر پیر خرف نہیں تو ضعیف الارادہ اور بظاہر زینت محل کی مٹھی میں ضرور تھے۔ ان سے یہ توقع عبث تھی کہ وہ زینت محل کے پھاڑے ہوئے کو سی سکیں گے۔
وزیر خانم نے ممکن حد تک تمام پہلوئوں پر اس ذرا سی مدت میں غور کیا اور بولی:
’’ملکۂ عالیہ کا حکم سر آنکھوں پر۔ لیکن ایک دن وہ بھی ہوگا، جب کسی بادشاہ کسی حاکم کا حکم نہ چلے گا، صرف اللہ ہو گا اور انصاف کی ترازو ہوگی۔ الامر یومئذ للہ، آپ نے بھی کلام شریف میں پڑھا ہو گا۔ اللہ سب کے دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ بندی نہیں جانتی کہ ملکۂ دوراں کے دل میں میرے خلاف زہر کے بیج کس نے بوئے۔ میں اپنا حال جانتی ہوں کہ میرے دل میں میرے مرحوم صاحب عالم، بادشاہ ظل اللہ اور ملکہ دوراں کے لیے احترام اور محبت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
’’وہ سب درست، لیکن ظل سبحانی کے ارشاد کی تعمیل جلد از جلد ہو‘‘۔ زینت محل نے ایک خشک مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’بے شک‘‘۔ وزیر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اس نے ملکہ کے سامنے سے اٹھ جانے کی اجازت بھی نہ لی اور نہ برخاستگی کے حکم کا انتظار کیا۔ ’’میں نے کسی باب میں اب تک ملکہ کو مایوس نہیں کیا۔ اب بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔ آپ کے دامن دولت میں جگہ نہیں تو نہ سہی۔ ہم اور آبادی میں جا مقسوم اپنا پائیں گے، خلق خدا ملک خدا۔ تسلیمات‘‘۔
وزیر خانم نے الٹے پائوں واپس ہونے کے بجائے زینت محل کی طرف پیٹھ کی اور ایوان سے باہر ہوگئی۔ اس وقت زینت محل کے سامنے تو اس نے یوں ظاہر کیا تھا کہ اسے قلعہ چھوڑنے کا کچھ غم ہوگا اور نہ سر چھپانے کی جگہ کی تلاش میں دربدر ہونا پڑے گا۔ لیکن اب اپنی ڈیوڑھی تک تنہا راہ طے کرتے کرتے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور قدم لڑکھڑانے لگے۔ بہ ہزار خرابی وہ گھر پہنچی اور ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح اپنے حجرے میں پلنگ پر گر پڑی۔ اتفاق سے اس وقت مرزا ابوبکر، مرزا خورشید عالم اور نواب مرزا خان تینوں ڈیوڑھی پر موجود تھے۔ انہوں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’اماں جان خیر تو ہے؟ مزاج کیسا ہے؟‘‘۔ لیکن وزیر کے چہرے پر مردنی تھی اور منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکتا تھا۔ مرزا ابوبکر نے فوراً ایک چوبدار حکیم محمد نقی خان کے لیے روانہ کیا۔ نواب مرزا خان اور خورشید مرزا نے لخلخے اور انگریزی نمکیات ماں کو سنگھائے۔ حکیم صاحب کے آتے آتے وزیر کو ہوش آگیا تھا، لیکن اس کے چہرے پر مردنی اسی طرح باقی تھی۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھی اور کہا کہ غم اور صدمے کے باعث جگر کا فعل سست ہوگیا ہے۔ انہوں نے نسخہ لکھا، چند بوندیں ایک مقوی مفرح کے اپنے سامنے پلوائیں اور مکمل آرام کی ہدایت دے کر رخصت ہوئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment