سی آئی اے نے محمد بن سلمان کو خشوگی کا قاتل ٹھہرادیا

ایس اے اعظمی
سی آئی اے نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خشوگی کا قاتل ٹھہرادیا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے صدر ٹرمپ کو پیش کئے جانے والے اپنے قیاسات میں کہا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے احکامات ولی عہد محمد بن سلمان نے دیئے تھے اور واشنگٹن میں موجود جمال خشوگی کو استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں دھکیلنے والے سعودی سفیر برائے واشنگٹن اور محمد بن سلمان کے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان تھے جنہوں نے واشنگٹن میں موجود خشوگی کو اس بات پر رضامند کیا کہ وہ استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں جاکر پہلی زوجہ سے طلاق اور نئی شادی کیلئے درکار دستاویزات حاصل کرلیں۔ اگرچہ یہ دستاویزات امریکا میں کسی بھی سعودی قونصل خانہ یا واشنگٹن کے سعودی سفارت خانہ سے بھی وصول کی جاسکتی تھیں، لیکن امریکہ میں سعودیہ کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے خشوگی کو اس امر پر رضامند کیا کہ وہ امریکا میں کسی سفارت خانہ کے بجائے ترکی/ استنبول میں سعودی قونصلیٹ چلے جائیں، جہاں ان کو وہ دستاویزات با آسانی فراہم کردی جائیں گی۔ خشوگی کو خالد بن سلمان نے اس امر کی یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ استنبول کے قونصل خانہ میں ان کو مکمل تحفظ ملے گا۔ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ خالد بن سلمان، خشوگی کے ممکنہ قتل کی پلاننگ سے خبر دار تھے یا نہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں یہ بات طے ہے کہ خالد بن سلمان اپنے بھائی محمد عہد بن سلمان کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے، وہ اس امر سے بے خبر تھے کہ سی آئی اے ان کی تمام گفتگو کو ریکارڈ کر رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے حکام نے اپنے قیاسات کو تحریری شکل میں صدر ٹرمپ کو پیش کردیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اس سلسلے میں کیا قدم اُٹھاتے ہیں۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے کے اندازوں کے مطابق سعودی ولی محمد عہد بن سلمان نے واشنگٹن میں مقیم صحافی جمال خشوگی کے قتل کا حکم دیا تھا۔ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی قتل کی واردات کی بابت اس کو اول روز سے یقین تھا کہ محمد بن سلمان ہی خشوگی کے قتل میں ملوث ہیں، لیکن اب وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ واقعی سعودی ولی عہد نے اس کا حکم دیا تھا۔ امریکی سی آئی اے کے حوالء سے امریکی الیکٹرونکس اور پرنٹس میڈیا کا دعویٰ ہے کہ سی آئی اے کا یہ تجزیہ یا اندازہ ان کالز کی ریکارڈنگز کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے، جو جمال خشوگی کے قتل سے قبل اور قتل کے بعد سعودی حکام اور انٹیلی جنس افسران اور سفارت کاروں کی جانب سے متعدد بار کی گئیں۔ یہ ریکارڈ امریکہ، ترکی اور سعودیہ میںہونے والی کالز کا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق سی آئی اے کی سوچ میں جمال خشوگی قتل کیس میں اس وقت تبدیلی آئی جب ترکی میں کیس میں شامل ایک سعودی اسپیشل ایجنٹ نے استنبول سے سعودی عرب کال کی اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک مشیر خاص، قحطانی کو کہا کہ اپنے باس کو بتلا دو کہ مشن مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن امریکی حکام نے سی آئی اے کے اس تجزیہ کی بنیاد پر انتباہ کیا ہے کہ نئی معلومات خشوگی کیس میں ولی عہد محمد بن سلمان سے براہ راست تعلق کا ثبوت نہیں ہیں، جبکہ واشنگٹن میں موجود سعودی سفارتی ترجمان فاطمہ بیشان نے بھی واضح کیا ہے کہ سی آئی اے کا مجوزہ اندازہ جھوٹ پر مبنی ہے اور سعودی سفیر خالد بن سلمان نے کبھی بھی ترکی کے حوالہ سے یا خشوگی کے حوالہ سے کوئی ٹیلی فونک گفتگو نہیں کی ہے۔ ادھر امریکی صحافی گریگ ملر نے لکھا ہے کہ سی آئی اے کے اس اندازے نے امریکی صدر ٹرمپ کیلئے سعودی عرب جیسے قریبی اتحادی سے تعلقات اور مفادات بچانے کی کوششوں کو جھٹکا دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی میڈیا نے سی آئی اے کے تجزیہ میں ترک حکام کی جانب سے فراہم کی جانے والی خشوگی کے مبینہ قتل کی واردات کی ہائی کوالٹی وائس ریکارڈنگز کو اپنی تحقیق و تجزیہ کا حصہ بنانے کی کوئی بات نہیں لکھی ہے، جو جمال خشوگی کے سعودی سفارت خانہ میں داخلہ اور افسران کے ساتھ تلخ کلامی یا جھگڑے کی ہیں۔ ترک حکام نے کبھی بھی یہ بات آشکار نہیں کی ہے کہ سعودی سفارت خانہ کے اندر محفوظ کمروں کی وائس ریکارڈنگز انہوں نے کس طرح حاصل کیں۔ ترک حکام کے حوالہ سے مقامی جریدے ’’ینی شفق‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک قیادت کی اجازت سے متعلقہ اتھارٹیز نے قتل کی وائس ریکارڈنگز کی کاپیاں امریکا، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، کینیڈا سمیت متعدد ممالک کو فراہم کیں تاکہ اس بارے میں جانا جاسکے کہ منحرف سعودی صحافی جمال خشوگی کا قتل ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی۔ ادھر ترک جریدے حریت ڈیلی نے اعلیٰ ترک حکام کے حوالہ سے دعویٰ کردیا ہے کہ ترکی کے پاس ایک دوسری وائس ریکارڈنگ بھی موجود ہے جس کو جلد جاری کیا جائے گا اور اس ریکارڈنگ سے سعودی پراسکیوٹر کا بیان غلط ثابت ہوجائے گا کہ خشوگی کا قتل انٹیلی جنس اور سیکورٹی افسران کا ’’رف آپریشن‘‘ تھا۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ سی آئی اے نے اپنے تجزیہ اور مبینہ قتل کے احکامات کی ذمہ داری ولی عہد محمد بن سلمان پر ڈالنے کیلئے جو اندازے لگائے ہیں ان میں انٹیلی جنس ذرائع کی دستاویزات اور الیکٹرونک فائلیں شامل ہیں۔ دوسری جانب سعودی میڈیا نے ایسی اطلاعات کو گمراہ کن قرار دیا ہے کہ جن میں ولی عہد محمد بن سلمان کو جمال خشوگی کے قتل کا ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی حکام نے واضح کردیا ہے کہ خشوگی کو قتل کرنے کا حکم ایک سینئر سعودی انٹیلی جنس افسر کا اپنا صوابدیدی عمل تھا، جس پر ان کو فارغ کردیا گیا ہے اور حراستی نگرانی میں رکھا گیا ہے، وہ مملکت میں نقل و حمل نہیں کرسکتے۔ سعودی حکام نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب حکومت نے پراسکیوٹرز آفس کی مدد سے ان تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی کارروائی کو حتمی شکل دے دی ہے جو جمال خشوگی کو اپنی صوابدید پر زبردستی سعودی عرب لانا چاہتے تھے۔ انکار پر انہوں نے جمال خشوگی پر تشدد کیا اور ان کے سر پر ایک پلاسٹک بیگ چڑھا کر دم گھونٹ دیا۔ بعد ازاں تیز دھار آلات کی مدد سے ان کی گردن الگ کردی گئی۔ سعودی حکام کا دعویٰ ہے کہ پراسکیوٹرز آفس نے تیز ترین انصاف کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پانچ ملوث قاتلوں کو سزائے موت تجویز کی ہے اور باقی ماندہ چھ افراد کیلئے عمر قید کی سزا تجویز کی ہے۔ ترک میڈیا نے اعلیٰ افسران اور پراسکیوٹرز آفس کے حوالہ سے کہا ہے کہ سعودی عرب نے خشوگی کے قتل کی تحقیقات کیلئے ترکی کے ساتھ مشترکہ کمیٹی بنائی اور واردات کا معمہ حل کرنے کیلئے اپنے پبلک پراسکیوٹر کو خاص طور پر استنبول اور انقرہ بھیجا، لیکن ان کا دورہ ثمر آور ثابت نہ ہوسکا۔ کیونکہ ترک حکام کا یہ شکوہ اول روز سے برقرار ہے کہ جمال خشوگی کی لاش کہاں ہے اور اگر وہ سعودی بیان کے مطابق ٹکڑوں کی شکل میں ایک مقامی سہولت کار (ترک مجرم گروہ) کے حوالے کردی گئی تھی تو اس سہولت کار کی شناخت بیان کی جائے اور اس مقام کو ظاہر کیا جائے جہاں ان کی لاش ہوسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment