وجیہ احمد صدیقی
وفاقی حکومت نے ناقص کارکردگی کی وجہ سے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کو تبدیل کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نئے اور جدید کیمروں کی تنصیب پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ جبکہ قومی احتساب بیورو نے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں نصب 18 سو کلوز سرکٹ کیمروں میں سے 600 کیمروں کے ناکارہ ہونے پر تفتیش شروع کردی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے یہ نوٹس اسلام آباد سے خیبرپختون کے پولیس افسر طاہر خان داوڑ کے اغوا کے بعد کیمروں کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات کی روشنی میں لیا ہے۔ جبکہ چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے 900 کیمرے ناکارہ ہیں۔ تاہم وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کے سیف سٹی پروجیکٹ کا کوئی کیمرہ کارآمد نہیںہے۔ ان کیمروں سے کسی کو شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کیمرے گاڑی کی نمبر پلیٹ تک شناخت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کے اس انکشاف کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت ان کیمروں کی تبدیلی کے بارے میں غور کررہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے ان ناکارہ کیمروں کی تنصیب کے ذمہ داروں پر بھی ہاتھ ڈالنا ضروری ہے۔ فی الحال موثر کیمروں کی تنصیب کی لاگت کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ کیونکہ اس منصوبے پر 16 ارب روپے خرچ ہوئے تھے۔ اب ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے اخراجات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کے تحت شہر کے مختلف راستوں پر 2100 کیمرے لگائے جانے تھے، تاہم صرف 1800 کیمرے لگائے گئے۔ یہ منصوبہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے شروع کیا تھا اور نواز لیگ کے حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تکمیل کو پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق اس دوران کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کیمروں سے کھینچی جانے والی تصاویر کا معیار کیا ہے اور کیا ان سے کسی جرم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے؟۔ جب سینیٹ میں اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن سے سوال کیا گیا کہ اسلام آباد میں لگائے گئے ان کیمروں کا سوفٹ ویئر اس قابل نہیں ہے کہ کسی چہرے کی شناخت کرسکے، کیا یہ درست ہے؟۔ تو بلیغ الرحمن نے اعتراف کیا کہ یہ درست ہے اور ساتھ یہ کہہ دیا کہ ان کی جگہ نئے کیمرے منگائے جارہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ کیمرے دو میگا پکسل کے ہیں، جو نہ انسان کا چہرہ دکھا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی گاڑی کی نمبر پلیٹ کی شناخت میں مدد دے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ منصوبہ 13 ارب روپے سے شروع کیا گیا تھا، لیکن اس پر اب تک 16 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں 11.9 ارب روپے کے اس منصوبے کو 15.9 ارب تک پہنچا دیا گیا تھا اور عذر یہ تراشا گیا تھا کہ ایف بی آر نے آلات پر ٹیکس کی چھوٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس دوران کسی نے بھی یہ نوٹس نہیں لیا کہ کس معیار کے کیمرے لگائے جارہے ہیں۔ کیمروں کی خرابی کی خبریں مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے ساتھ ساتھ ٹرک پر نصب 3 اسکینرز بھی چین سے درآمد کئے گئے تھے، جنہیں اسلام آباد کے داخلی راستے پر لگایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت پورے شہر میں ایک ہزار 8 سو 40 کیمرے نصب کیے گئے اور منصوبے کا افتتاح 2016ء میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی بہت سے کیمروں میں خرابیاں سامنے آئیں اور پہلے ہی مرحلے میں انکشاف ہوا کہ 6 سو سے زائد کیمرے ٹھیک سے کام نہیں کررہے ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ان کیمروں کی خرابی کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ زیادہ تر کیمروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ ان کے تاروں کو کاٹ دیا جانا ہے۔ جبکہ ترنول اور کشمیر ہائی وے سمیت متعدد ہائی ویز اور بارہ کہو میں تعمیراتی کام کے دوران 236 کیمروں کے تار موسمی اثرات کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ہلکی کوالٹی کے دو میگا پکسل والے ان کیمروں کیلئے تار بھی غیر معیاری استعمال کئے گئے، جو اس کام کیلئے موزوں نہیں تھے۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے ان کیمروں کو کنٹرول کرنے کیلئے مرکزی کنٹرول روم میں کوئی آپریٹر بھی نہیں ہے۔ جبکہ بہت سے کیمرے رخ بدلنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور ایک ہی سمت کا منظر دکھاتے ہیں۔ اس مقام پر دوسری طرف کیا ہورہا ہے یہ علم نہیں ہوسکتا۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں جرائم، فرقہ وارانہ فسادت اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی بیخ کنی کرنا تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ان کیمروں کی مرمت کیلئے ٹینڈر جاری کرنے کی درخواست بھی ارسال کی تھی۔ لیکن اس بارے میں آج تک نہیں پتہ چل سکا کہ اس درخواست کا کیا ہوا ؟ اس کے علاوہ جن کیمروں کے بارے میں یہ خوش گمانی تھی کہ وہ کام کررہے ہیں، ان میں سے بھی اکثر کا یہ حال ہے کہ ان سے لی گئی ویڈیوز اور تصاویر دھندلی اور مدھم ہیں۔ کسی کیمرے کی بیٹری نہیں ہے تو کسی کے لینس ہی غائب ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کیمرے اندھیرے میں کام نہیں کرسکتے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں نائٹ وژن کیمرے لگائے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں نائٹ وژن کیمروں کی تنصیب ایک مہنگا کام ہے۔ ایک سابق پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی پر اعتماد ضرور کیا جائے لیکن پولیس والے کی آنکھ پر زیادہ اعتماد کیا جائے اور اسے جدید آلات سے مزین کرکے تعینات کیا جائے تاکہ وہ ملزمان کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے۔ کیمرے کی آنکھ تو صرف دیکھ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭