شریف خاندان کے ہاتھ سے پارٹی کمان نکل جانے کا امکان بڑھ گیا

امت رپورٹ
مستقبل قریب میں شریف خاندان کے ہاتھ سے پارٹی کمان نکل جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری بھی متوقع ہے، جو اپنے تایا نواز شریف اور والد شہباز شریف کے قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد سے ڈی فیکٹو سربراہ کے طور پر پارٹی چلا رہے ہیں۔ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے حمزہ شہباز نے 20 نومبر تک عبوری ضمانت کرا رکھی ہے۔ حمزہ شہباز اور ان کے بھائی سلیمان شہباز کو رمضان شوگر مل کیس میں تحقیقات کا سامنا ہے۔ نیب کے بقول دونوں بھائیوں نے فیکٹریوں کو ملانے والے پل کی تعمیر پر سرکاری خزانے کے 20 کروڑ روپے خرچ کئے تھے۔ اس کے علاوہ حمزہ شہباز کو آمدنی سے زائد اثاثے بنانے اور صاف پانی کمپنی کیس میں بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔ نیب نے حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے نام ای سی ایل میں درج کرنے کی درخواست وزارت داخلہ کو دی ہے۔ تاہم سلیمان شہباز پہلے ہی ملک سے جا چکے ہیں۔ لیکن ذرائع نے بتایا کہ رمضان شوگر مل اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے کیس میں مطلوب سلیمان شہباز اپنے والد شہباز شریف کے مشورے پر 27 اکتوبر کو لندن روانہ ہوئے تھے۔ کیونکہ پارٹی صدر کا خیال ہے کہ سلیمان شریف کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور پھر انہوں نے کبھی پبلک آفس بھی ہولڈ نہیں کیا۔ لہٰذا سیاسی صعوبتیں اٹھانے سے بہتر ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ اور حالات کے موافق ہونے کا انتظار کریں۔
سلیمان شہباز کے لندن پہنچنے کے بعد شریف خاندان کی تقریباً تمام ینگ جنریشن برطانیہ میں جمع ہو گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر نیب کو مطلوب ہیں۔ اشتہاری قرار دیئے جانے والے نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ پہلے ہی لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ جہاں نیب کے ایک اور مفرور شہباز شریف کے داماد علی عمران یوسف بھی ان سے جاملے ہیں۔ علی عمران یوسف کو پنجاب پاور کمپنی کے میگا اسکینڈل کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں علی عمران رواں برس اپریل میں نیب کے سامنے آخری بار پیش ہوئے تھے اور اس کے بعد دبے پائوں ملک سے نکل گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ شریف خاندان کی تیسری جنریشن کے بیشتر ارکان بھی لندن میں ہیں۔ ان میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر، حسین نواز کے بیٹے زید حسین نواز اور دیگر شامل ہیں۔ اور اب ان سب کو مریم نواز کا انتظار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ دبئی میں کاروبار کرنے والے اسحاق ڈار کے بڑے صاحبزادے اور نواز شریف کے داماد علی ڈار کا بھی لندن آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بالخصوص کلثوم نواز کی علالت کے دوران ان کی اہلیہ اسماء نے اپنے بچوں کے ہمراہ لندن میں ہی زیادہ وقت گزارا، جو نواز شریف کی چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ اسحاق ڈار کے لندن میں مستقل ڈیرے ڈالنے پر دبئی میں کاروبار کرنے والے ان کے دونوں بیٹوں علی ڈار اور حسنین ڈار کا بھی لندن میں آنا جانا بڑھ گیا ہے۔ علی ڈار اور حسنین ڈار دونوں ایک بڑے کاروباری ایچ ڈی ایس گروپ کے کرتا دھرتا ہیں جس کا سارا کاروبار دبئی اور دیگر خلیجی ریاستوں میں ہے۔
ذرائع کے بقول شریف خاندان کی لندن میں اس دوسری اور تیسری جنریشن کے بزرگ اور عارضی سربراہ فی الحال اسحاق ڈار ہیں۔ عموماً چھٹی کے دنوں میں لندن میں مقیم نصف سے زائد شریف خاندان ایک ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ اجتماع حسین نواز کی رہائش گاہ پر ہوتا ہے۔ جس میں ملکی سیاست، نواز اور شہباز شریف کے مستقبل کے معاملات بھی ڈسکس ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا معطلی کا فیصلہ سپریم کورٹ بھی برقرار رکھتا ہے تو پھر لیگی قیادت کا اگلا ہدف مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکلوانا ہوگا تاکہ وہ لندن میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کو جوائن کر لیں اور پاکستان میں حالات موافق ہونے تک وہاں قیام کریں۔ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سمیت دیگر ریفرنسوں میں مریم نواز کا نام نہیں۔
لیگی ذرائع کے مطابق لندن سے گرفتاری دینے پاکستان آتے وقت نواز شریف کے جو خیالات تھے۔ اس میں تبدیلی آئی ہے۔ اب ان کی خواہش ہے کہ کم از کم ان کی بیٹی مریم نواز مزید مصائب سے بچ جائے۔ ذرائع کے بقول کسی نے میاں صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ جارحانہ رویہ ترک کرنے کی صورت میں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ یہ اسی نوعیت کا مشورہ ہے، جو اس سے قبل چوہدری نثار دے رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے بیٹی کی خاطر اب اس مشورے کو تسلیم کر لیا ہے۔ جبکہ جیل کی چند روزہ صعوبتوں نے مریم نواز کو بھی جذباتی کیفیت سے باہر نکال دیا ہے اور اب وہ زمینی حقائق کو ترجیح دے رہی ہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ العزیزیہ ریفرنس اپنے آخری مراحل میں ہے۔ اس کا فیصلہ آنے میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔ اب تک کی عدالتی سماعت سے اندازہ ہورہا ہے کہ اس ریفرنس میں بھی نواز شریف کو ریلیف ملنا مشکل ہے۔ دوسری جانب صاف پانی اسکینڈل اور آشیانہ ہائوسنگ اسکیم سے شہباز شریف کے فوری نکلنے کے امکانات معدوم ہیں۔ جبکہ ذرائع کے بقول دسمبر کے اواخر یا جنوری کے اوائل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔ اس کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ا ممکنہ صورت حال میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی کمان شریف خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے قانونی شکنجے میں آنے کے بعد پاکستان میں شریف خاندان کا کوئی قابل ذکر رکن ایسا نہیں جو پارٹی کی کمان سنبھال سکے۔ جبکہ لندن میں پناہ لینے والے حسن نواز، حسین نواز، سلیمان شہباز، حمزہ شہباز اور علی عمران سمیت فیملی کے بیشتر ارکان ایک تو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے اور پھر گرفتاری کے خوف سے پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔ اسحاق ڈار پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے کے نام پر نواز شریف کی طرح پاکستان آکر پھنسنا نہیں چاہتے۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے ہاتھ سے پارٹی کی کمان نکل جانے کی صورت میں وقتی طور پر پارٹی شاہد خاقان عباسی کے حوالے کی جا سکتی ہے۔ پارٹی کے رسمی اور غیر رسمی اجلاسوں میں یہ معاملہ ڈسکس بھی ہوا ہے۔ چونکہ خواجہ برادران پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ایسے میں ایک شاہد خاقان عباسی بچتے ہیں، جو نہ صرف شریف خاندان کے آزمودہ قابل اعتماد ساتھی ہیں، بلکہ پارٹی چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور تقریباً دیگر تمام رہنمائوں کے لیے قابل قبول بھی ہیں۔ لیگی ذرائع نے اعتراف کیا کہ ممکنہ صورت حال سے بچنے کے لیے شہباز شریف پس پردہ بات چیت چلانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں، چوہدری نثار سے ان کی حالیہ طویل ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ذرائع کے بقول تاہم نون لیگ کو فوری طور پر مطلوبہ ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔ البتہ طاقت کے سرچشمے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کا تجربہ ناکام ہو گیا تو ملکی سیاست قیادت کے متبادل کے طور پر واحد شہباز شریف ہیں، جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم نواز شریف کے لیے یہ دروازے بند کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز دونوں اگرچہ رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر ہیں۔ تاہم حمزہ شہباز کی سیاسی مصروفیات کے سبب رمضان شوگر مل سمیت دیگر کاروباری معاملات سلیمان شہباز ہی دیکھا کرتے تھے۔ اب ان کے بیرون ملک جانے کے نتیجے میں فیملی کا کاروبار بھی متاثر ہورہا ہے۔ اس کے باوجود سلیمان شہباز نے فی الحال پاکستان واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب نیب حسن نواز، حسین نواز، علی عمران یوسف اور اسحاق ڈار کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانا چاہتا ہے۔ تاہم لندن میں موجود شریف فیملی کے قریبی ذرائع کے بقول نیب کو مطلوب ان افراد کے وکلا انہیں یہ باور کرا چکے ہیں کہ ان کی پاکستان حوالگی کا امکان نہیں۔ ذرائع کے مطابق وکلا نے اس سلسلے میں ہوم ورک کر لیا ہے اور اگر ریڈ وارنٹ کے اجرا کے بعد حسن، حسین، اسحاق ڈار اور علی عمران یوسف کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کے لیے برطانوی حکام سے باقاعدہ رابطہ کیا جاتا ہے تو ان افراد کی حوالگی کے خلاف وکلا کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا جائے گا کہ ان کے موکلوں کے خلاف مقدمات سیاسی انتقام ہیں۔ اگر ان افراد کو پاکستان کے حوالے کیا گیا تو انہیں انصاف ملنے کا امکان نہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment