حضرت ابو ہریرہؓ کا حافظہ:
قرآن کریم کے تیس پاروں کے حفظ کا رواج خود حدیث کی اور تاریخ کی ان شہادتوں کی زندہ توثیق ہے، جو ہماری کتابوں میں حدیث کے راویوں کی قوت یادداشت اور حافظے کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ آخر تیس تیس پاروں کے بے شمار زندہ حفاظ کو دیکھ کر حضرت ابو ہریرہؓ کے حافظے کے اس امتحانی نتیجہ کا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے، جسے امام بخاریؒ نے ’’کتاب الکنیٰ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مروان بن الحکم جو دمشق کی مروانی حکومت کا سب سے پہلا حکمران ہے، اسی کے سیکریٹری ابو الزعزہ کا بیان ہے کہ ایک دن مروان نے حضرت ابوہریرہؓ کو طلب کیا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کثرت سے جو حدیثیں روایت کیا کرتے تھے، اسی سلسلے میں مروان کچھ شکوک و شبہات میں مبتلا تھا اور سیدنا ابوہریرہؓ کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
بہرحال بلانے پر حضرت ابوہریرہؓ تشریف لائے۔ مروان نے ان کے آنے سے پہلے ہی اپنے سیکریٹری ابو الزعزہ کو حکم دے رکھا تھا کہ پردے کے پیچھے دوات قلم اور کاغذ لے کر بیٹھ جائے۔ میں ابوہریرہؓ سے حدیثیں پوچھوں گا، جو حدیثیں وہ بیان کریں، ان کو تم لکھتے چلے جانا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ مروان حضرت ابو ہریرہؓ سے حدیثیں پوچھنے لگا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے جاتے تھے اور پس پردہ ابو الزعزہ لکھتا جا رہا تھا۔ ان حدیثوں کی تعداد کیا تھی؟
خود ابو الزعزہ کا بیان ہے: پس مروان ابوہریرہؓ سے پوچھتا رہا اور میں نے بہت سی حدیثیں لکھ لیں۔
’’حدیثا کثیرا‘‘ (بہت سی حدیثوں) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حدیثوں کی کافی معقول تعداد تھی، جو اس وقت قلمبند ہوئیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ کو قطعاً مروان کی اس پوشیدہ کارروائی کی خبر نہ تھی۔ مجلس برخواست ہوگئی۔ حضرت چلے گئے اور مروان نے حدیثوں کے اس مجموعہ کو بحفاظت تمام رکھوا دیا۔
ابو الزعزہ کہتے ہیں کہ مروان نے سال بھر کے بعد سیدنا ابوہریرہؓ کو دوبارہ طلب کیا اور مجھے حکم دیا کہ مکتوبہ حدیثوں کے اسی مجموعہ کو لے کر پردہ کے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ میں ان سے انہی حدیثوں کا پھر پوچھوں گا، دیکھو اب کی دفعہ وہ کیا بیان کرتے ہیں؟ تم ان مکتوبہ حدیثوں سے ان کو ملاتے جانا۔ حکومت کی طرف سے سیدنا ابوہریرہؓ کا گویا یہ امتحان تھا۔
امتحان لیا گیا، نتیجہ کیا نکلا؟ ابو الزعزہ ہی کی زبانی سنئے:
’’پس مروان نے نوشتہ حدیثوں کے مجموعہ کو سال بھر تک رکھ چھوڑا۔ سال بھر کے بعد مجھے پھر پس پردہ بٹھا کر حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھنے لگا اور میں اس مجموعہ میں دیکھتا جاتا تھا، پس ابوہریرہؓ نے نہ کسی لفظ کا اضافہ کیا اور نہ کوئی کمی کی‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ کی ان حدیثوں کے متعلق تو صحیح طور پر نہیں بتایا جاسکتا کہ واقعی ان کی صحیح تعداد کیا تھی۔ بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ چند قلیل روایتیں نہیں تھیں۔ کثیر روایتوں کا یہ مجموعہ تھا، جو کتنی حفاظت سے ان کو لفظ بہ لفظ یاد تھا۔
امام زہریؒ کا حافظہ:
اسی مروانی حکومت کے فرمانروا ہشام بن عبد الملک نے معروف تابعی اور محدث جلیل حضرت امام زہریؒ کا جو امتحان لیا تھا، اس میں تو یہ تصریح بھی موجود ہے کہ چار سو حدیثوں کا یہ مکتوبہ مجموعہ تھا۔ قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے مروان نے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایتوں اور ان کی قوت یادداشت کو جانچنا چاہا تھا، اسی طرح اپنے عہد حکومت میں ہشام نے بھی ابن شہاب زہریؒ کا امتحان کرنا چاہا۔ اس نے امتحان لینے کی یہ ترکیب اختیار کی کہ ایک دن دربار میں امام زہریؒ کسی ضرورت سے آئے ہوئے تھے۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ ہمارے شہزادے کے لئے کچھ حدیثیں لکھوا دیجئے۔ زہریؒ راضی ہوگئے اور کاتب بلایا گیا۔ زہریؒ نے چار سو حدیثیں شہزادے کے لئے (زبانی) لکھوا دیں۔
ایک مہینے کے بعد ہشام کے دربار میں پھر زہریؒ کسی کام سے پہنچے تو ہشام نے افسوس کے انداز میں کہا: وہ کتاب جو آپ نے شہزادے کے لئے لکھوائی تھی، وہ تو کہیں گم ہوگئی ہے۔ امام زہریؒ نے کہا تو پریشانی کی کیا بات ہے؟ کاتب کو بلوایئے، پھر لکھوائے دیتا ہوں۔ ہشام کی بھی یہی غرض تھی۔ چنانچہ کاتب کو بلایا گیا، وہیں بیٹھے بیٹھے امام زہریؒ نے پھر وہی چار سو احادیث دوبارہ لکھوا دیں۔ پہلا مسودہ در حقیقت غائب نہیں ہوا تھا۔ یہ ہشام کی ایک ترکیب تھی۔ جب زہریؒ دربار سے اٹھ کر باہر گئے تو ہشام نے پہلی کتاب کا دوسری دفعہ لکھائے ہوئے نوشتے سے مقابلہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایک حرف بھی امام زہریؒ نے نہیں چھوڑا تھا۔(بے مثال واقعات)