سولہ برس بعد کفن تک میلانہ ہوا

ضیا ء الرحمن چترالی
کچھ عرصہ قبل ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے آبادکاروں نے فلسطین کے ایک گائوں کو قبضہ کرکے وہاں کے مقامی مسلمانوں کو دربدر کر دیا۔ مقبوضہ گائوں کے باسی علاقہ چھوڑتے ہوئے اپنے 2 شہیدوں کے اجساد خاکی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے جب ان کی قبر کشائی کی تو برسوں پہلے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نشانہ بننے والے شہیدوں کا جسم نہ صرف تروتازہ تھا، بلکہ ان سے خون بھی بہہ رہا تھا۔ عزالدین القسام بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے ان دونوں شہیدوں انجینئر یحییٰ عیاش اور خلیل الشریف کو اعزاز و اکرام کے ساتھ دوسرے جگہ دفن کر دیا گیا۔ فلسطینی خبر رساں ویب سائٹ ’’شبکۃ فلسطین‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطین کے مختلف علاقوں میں فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں اور مکانات پر قبضے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں بھی یہودی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے ایک گائوں پر قبضہ کرکے وہاں سے اصلی باشندوں کو دربدر کردیا۔ اس گائوں میں صہیونی ریاست کی جانب سے آبادکاروں کے لیے 5 سو نئے مکانات تعمیر کئے جائیں گے۔ چونکہ مذکورہ گائوں پر قبضہ کرنے والے یہودی آبادکاروں کے نقشے کے مطابق، وہ مسلمانوں کے قبرستان پر عمارتیں تعمیر کرنے والے ہیں، اس لیے فلسطینی باشندے علاقہ چھوڑتے وقت اپنے شہیدوں کے اجساد خاکی کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مغربی کنارے میں واقع اس مقبوضہ گائوں کے مقامی قبرستان میں دو شہدا انجینئر یحییٰ عیاش اور خلیل الشریف کے اجساد خاکی مدفون تھے۔ مذکورہ دونوں شہدا کا تعلق حماس کے عز الدین القسام بریگیڈ سے تھا۔ عز الدین القسام بریگیڈ کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق، انجینئر یحییٰ عیاش 25 فروری 1996ء کو اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ مجدی ابوورد اور ابراہیم السراخنہ نامی مجاہدین بھی اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ تاہم ان دونوں کی تدفین الخلیل شہر میں ہوئی تھی۔ جبکہ خلیل الشریف کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں 16 سال پہلے شہید کیا گیا تھا۔ مغربی کنارے میں واقع اس چھوٹے سے گائوں کے اسرائیلی قبضے میں چلے جانے کے بعد جب مقامی افراد نے دونوں شہدا کی قبر کشائی کی تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ شہدا کے جسم بالکل صحیح سلامت تھے۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے کفن بھی خراب نہیں ہوئے تھے اور دونوں کے زخم بھی تازہ تھے اور خون بہہ رہا تھا۔ جبکہ خلیل الشریف نے اپنی شہادت کی انگلی بھی ایسے ہی بلند کی ہوئی تھی، جیسے کہ انہوں نے شہادت کے وقت اسے بلند کیا تھا۔ جبکہ خون بہنے سے ان کا کفن بھی لال ہوگیا تھا۔ مقامی افراد کی جانب سے دونوں شہدا کی قبر کشائی کے بعد ان کے اجساد کی دوسری جگہ تدفین کی گئی۔ اس موقع پر سینکڑوں افراد موجود تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے مجاہدین کی اس کرامت کا مشاہدہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق، شہدا کے اجساد خاکی کو قبروں سے نکالنے کے بعد انہیں فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر مقامی مسجد میں دیدار عام کے لیے رکھا گیا۔ بعد ازاں اسکول کے بچوں نے ان پر پھول نچھاور کئے اور انہیں پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ دفنایا گیا۔ القسام بریگیڈ نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ہمارے مجاہدین کے اس قسم کے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ اب تک کم ازکم پانچ شہدا کے اجساد برسوں بعد صحیح سلامت دیکھے گئے ہیں۔ الخلیل سے تعلق رکھنے والے مجاہد کمانڈر باسل القواسمی کا واقعہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ باسل کا جسد خاکی 9 برس بعد قبر سے نکالا گیا تھا اور ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ جبکہ شہید سمیر نابلسی کے اہل خانہ نے 15 برس بعد ان کے جسد خاکی کو قبر کو نکالا تھا اور ان کا جسم بھی ترو تازہ اور لہو بہہ رہا تھا۔ خلیل الشریف کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ القسام بریگیڈ کے ایک ذیلی گروپ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے صہیونی ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔
اس موقع پر شہید کے بھائی عاصم کا کہنا تھا کہ میرے بھائی نے 9 سال تک صہیونی فوج کا مقابلہ کیا اور بالآخر ایک شدید جھڑپ میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ عز الدین القسام بریگیڈ نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ شہدا کو قرآن کریم نے زندہ قرار دیا ہے اور انہیں مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے شہدا کے اجسام عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اپنی میں صحیح سلامت رہتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ عراق میں پیش آیا۔ جب گزشتہ صدی میں 2 شہید صحابہ کرامؓ کی قبر کشائی کی گئی تھی۔ جن کے پاکیزہ اجساد بھی نہ صرف صحیح سلامت تھے۔ بلکہ زخموں سے خون بھی بہہ رہا تھا۔

Comments (0)
Add Comment