اقبال اعوان
کراچی میں واقع اٹلس ہنڈا موٹر سائیکلوں کے پارٹس بنانے والی فیکٹری میں ہونے والے حادثے میں جاں بحق 6 محنت کشوں کے لواحقین نے حصول انصاف کیلئے چیف جسٹس سے اپیل کر دی ہے۔ واضح رہے کہ افسوس ناک واقعے کو 5 روز گزر چکے ہیں اور پولیس سرکاری مدعیت میں مقدمہ درج کر کے روایتی تفتیش سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ جبکہ فیکٹری کی انتظامیہ نے بھی جاں بحق ورکرز کے ورثا سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
14 نومبر کی دوپہر نیشنل ہائی وے پر قائد آباد منزل پمپ کے قریب واقع موٹر سائیکلوں کے پارٹس بنانے والی اٹلس ہنڈا فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں 6 ورکر جھلس کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ ’’امت‘‘ نے غمزدہ ورثا سے رابطہ کیا تو واقعے میں جاں بحق ہونے والے لانڈھی مظفر آباد کالونی کے رہائشی عامر عبداللہ کے والد محمد کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا آبائی شہر پشاور ہے اور ہم کراچی میں گزشتہ 45 سال سے مقیم ہیں۔ جاں بحق ہونے والا بیٹا عامر عبداللہ 9 بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا۔ اس نے میٹرک کرکے کیمیکل کے شعبے میں ڈپلومہ کیا اور 4 سال سے اس فیکٹری میں بطور اسسٹنٹ منیجر فرنس ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہا تھا۔ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا۔ ایک بچی دو سال کی ہوگئی ہے اور ایک بچی دو ہفتے قبل ہوئی تھی۔ بچی کی پیدائش پر میرا بیٹا مٹھائی کھلاتا پھر رہا تھا۔ حادثے والے روز صبح جاتے ہوئے کہہ گیا تھا کہ شام کو واپس آکر دوستوں کو ہوٹل میں پارٹی دوں گا۔ دوپہر ایک بجے فیکٹری میں کھانے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس دوران فیکٹری سے فون آیا کہ فیکٹری میں حادثہ ہوگیا ہے اور میرا بیٹا زخمی ہے۔ اس کو ایمبولینس سے سول اسپتال بھجوا دیا گیا ہے۔ ہم سول اسپتال گئے تو وہاں جاکر معلوم ہوا کہ جھلس کر شدید زخمی حالت میں میرے بیٹے سمیت 6 افراد کو لایا گیا ہے اور ان سب کو برنس وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ جب وہاں گئے تو پولیس والوں نے روک دیا کہ ڈاکٹرز نے منع کیا ہے۔ کیونکہ زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ میں نے بہت منت و سماجت کی کہ ایک بار بیٹے کے پاس جانے دو۔ تاہم اندر نہیں جانے دیا گیا۔ سارا دن گزر گیا۔ بعد میں دیگر رشتے دار بھی آگئے۔ لیکن وہاں پر فیکٹری کا کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔ رات گیارہ بجے تمام زخمی دوران علاج چل بسے اور ان کو پوسٹ مارٹم کیلئے سول اسپتال کے مردہ خانے منتقل کر دیا گیا۔بعد میں پولیس والے آگئے کہ کارروائی کراکے لاشیں لے جائو۔ میں نے بیٹے کی لاش دیکھی، جو کوئلہ بن چکی تھی۔ ہم روتے دھوتے لاش لے کر گھر آگئے۔ اب تک کچھ پتا نہیں کہ کیا واقعہ رونما ہوا تھا، کس کی غفلت تھی؟ ہم سے فیکٹری انتظامیہ، پولیس یا حکومت کے لوگوں میں سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ ہم چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل کرتے ہیں کہ اس واقعے کا ازخود نوٹس لیں، ورنہ فیکٹری انتظامیہ اور پولیس معاملے کو دبا دے گی‘‘۔
واقعے میں جاں بحق عمران خاصخیلی کے کزن ظہور خاصخیلی کا کہنا تھا کہ عمران خاصخیلی گزشتہ 5 سال سے فیکٹری میں بطور آپریٹر کام کر رہا تھا۔ 14 نومبر کی دوپہر فیکٹری سے فون آیا تھا کہ عمران زخمی ہوگیا ہے اور اس کو سول اسپتال لے گئے ہیں۔ وہ اطلاع ملنے پر سول اسپتال گیا، جہاں بتایا گیا کہ عمران جھلس کر شدید زخمی ہے اور برنس وارڈ میں داخل ہے۔ وہ برنس وارڈ گیا تو دوپہر دو بجے سے رات گیارہ بجے تک اس کو عمران سے ملنے نہیں دیا گیا۔ رات گیارہ بجے کہا گیا کہ عمران مر چکا ہے اور کارروائی کے بعد لاش لے جائیں۔
ظہور خاصخیلی کا کہنا تھا کہ اسپتال میں فیکٹری کا کوئی آدمی نہیں ملا اور نہ ہی فیکٹری والوں نے تاحال کوئی رابطہ کیا ہے۔ مرنے والا عمران خاصخیلی شادی شدہ تھا۔ اس کی ایک سال کی بیٹی ہے اور بیوی 5 ماہ کی حاملہ ہے۔ واقعے والے روز اس نے واپس آکر بیوی کو اسپتال لے کر جانا تھا۔ عمران 12 سے زائد افراد کا واحد کفیل تھا۔ اس کے والد ڈپٹی کمشنر آفس میں نجی ملازم تھے اور ریٹائرڈ ہونے پر ان کے بقایا جات نہیں مل رہے تھے، جس پر عمران دفاتر کے چکر لگا رہا تھا۔ ظہور خاصخیلی کا کہنا تھا کہ فیکٹری والے واقعے کے بعد بالکل لاتعلقی دکھا رہے ہیں۔ جبکہ پولیس والوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ مقدمہ تو ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن نے اپنی مدعیت میں درج کرا دیا تھا، ابھی تفتیش ہو رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا کزن جھلس کر کوئلہ بن گیا تھا۔ موبائل فون پر اس کی شدید زخمی حالت کی تصویر دیکھ کر والدہ کئی بار بے ہوش ہوچکی ہیں۔ ظہور کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس واقعے کا ازخود نوٹس لیں اور انصاف دلوائیں ورنہ مقامی پولیس اور بااثر فیکٹری انتظامیہ معاملہ دبا دے گی۔
واضح رہے کہ 14 نومبر کی دوپہر پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں پہلے کہا گیا تھا کہ بوائلر پھٹا ہے اور مرنے والے گرم پانی اور کیمیکل سے جلے ہیں۔ جب بم ڈسپوزل اسکواڈ موقع پر گیا تو معلوم ہوا کہ اس فیکٹری میں کوئی بوائلر ہی نہیں، بلکہ موٹر سائیکل کے پارٹس بنانے کیلئے لوہے کو گلانے کی تین فرنس بھٹیاں ہیں جن کو گیس فراہم کرنے والی لائن میں لیکیج کے بعد پریشر بڑھ گیا تھا اور دھماکے سے آگ لگنے کے باعث اس شعبے میں موجود افراد زندہ جل گئے۔ دو روز قبل شاہ لطیف ٹاؤن تھانے نے واقعے کا مقدمہ نمبر 755/18 لاپرواہی اور غفلت برتنے کا درج کرلیا تھا۔ یہ مقدمہ ایس ایچ او سب انسپکٹر گھنور علی مہر کی مدعیت میں فیکٹری مالکان کے خلاف ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری والوں کی غفلت سامنے آئی ہے۔ اب کارروائی کریں گے۔ ورثا کو انصاف دلائیں گے اور ورثا کو معاوضہ بھی دلائیں گے۔
’’امت کی جانب سے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کے شعبہ تفتیش کے انچارج حسن بخش سولنگی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے کہ ایک واقعہ رونما ہوا اور 6 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ وہ فیکٹری جاکر معائنہ کرچکے ہیں اور اب دیگر ملازمین سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اگر فیکٹری والوں کی غفلت یا لاپرواہی ثابت ہوئی تب ہی کیس آگے چلے گا۔ اب تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے۔ اصل حقائق جلد سامنے آئیں گے۔ ٭