ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک کی رفاقت میں تبدیلی آب وہوا کے لیے کسی پر فضا مقام میں گئے۔ اتفاقاً وہاں پانی پر ان کے اور خلیفہ سلیمان کے غلاموں کے درمیان کسی بات پر تکرار ہوگئی۔ حضرت عمرؒ کے غلاموں نے خلیفہ سلیمان کے غلاموں کی پٹائی کردی۔ انہوں نے جاکر خلیفہ سلیمان سے اس کی شکایت کی۔ سلیمان نے حضرت عمرؒ کو بلایا شکایت کے لہجے میں کہا ’’آپ کے غلاموں نے میرے غلاموں کو مارا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’مجھے علم نہیں۔‘‘ سلیمان بگڑ کر بولا ’’آپ جھوٹ کہتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’جب سے ہوش سنبھالا ہے اور مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹ آدمی کو نقصان دیتا ہے، آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘
جہشیاری نے اپنی کتاب ’’الوزرا و الکتاب‘‘ میں روایت کیا ہے کہ حجاج نے ایک دن اپنے سیکریٹری سے کہا ’’لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ اس نے معذرت کی۔ کہا نہیں، ضرور بتانا ہوگا۔ اس نے کہا ’’لوگ آپ کو ظالم، خائن، قاتل، سخت گیر اور جھوٹا کہتے ہیں۔‘‘ کہا سب کچھ ٹھیک کہتے ہیں سوائے جھوٹ کے۔ کیوں کہ خدا جانتا ہے کہ جب سے معلوم ہوا کہ جھوٹ آدمی کے لیے عیب کی چیز ہے، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
عبادت میں رغبت:
مغیرہؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات گئے میں امام اعظم صاحبؒ کے پاس سے گزر رہا تھا۔ وہ سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر پڑھ رہے تھے۔ میں ٹھہر گیا۔ امام صاحبؒ جب آیت ’’لتسالن یومئذ…‘‘ پر پہنچے تو دیر تک روتے رہے اور یہی آیت دہراتے رہے۔ ان کا یہ حال دیکھ کر میں وہیں رہ گیا۔ صبح ہوتے وقت رکوع کیا۔ میں وضو کر کے مسجد میں گیا۔ دیکھا کہ امام صاحبؒ اسی حال میں ہیں اور ان کے چہرے پر نور چمک رہا ہے۔
امام صاحبؒ نوافل میں طویل رکوع و سجود کرتے تھے۔ کوڑے کی سزا کے بعد لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ہلکی نماز پڑھیں۔ فرمایا کہ بندے کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے لئے جو عمل کرے، اچھی طرح کرے۔
حق تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے۔‘‘ (سورئہ ملک: 2)
امام صاحبؒ کے اخفائے حال کا یہ عالم تھا کہ اپنے رومال کو تہہ کرکے رکھتے تھے اور نماز کے وقت اسی پر سجدہ کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ میری پیشانی پر سجدے کا نشان نہ پڑے، جس کو دیکھ کر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں قیام اللیل کرتا ہوں۔
نمازی بننے کی ترکیب:
اٹاوہ میں ایک شخص رہتا تھا، جو بالکل آزاد اور انگریزی رنگ میں سر سے پائوں تک رنگے ہوا تھا۔ اس نے اپنے نمازی ہو جانے کیلئے کوئی تعویذ حضرت تھانویؒ سے طلب کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے تعویذ تو کوئی ایسا آتا نہیں کہ میں اس کے اندر ایک سپاہی مع ڈنڈے کے لپیٹ کر رکھ دوں اور جب نماز کا وقت آیا کرے وہ فوراً ڈنڈے لے کر تعویذ کے اندر سے نکل کر زبردستی نماز پڑھوا دیا کرے۔
ہاں ترکیب ایسی بتا سکتا ہوں، جس سے دو تین دن میں ہی نمازی ہوجائیں گے، لیکن وہ ترکیب محض پوچھنے ہی کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ہے۔ وہ یہ کہ اگر ایک وقت کی نماز قضا ہو تو ایک وقت کا فاقہ کریں اور دو وقت کی قضا ہو تو دو وقت کا اور اگر تین وقت کی قضا ہو تو تین وقت کا فاقہ۔ بس دو تین ہی فاقوں میں نفس ٹھیک ہو جائے گا اور نماز کی پوری پوری پابندی نصیب ہو جائے گی، لیکن یہ صرف پوچھنے کی ترکیب نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی نے ہمت کرکے اس ترکیب پر عمل کرلیا اور برابر جما رہا تو ناممکن نہیں کہ دو تین روز ہی میں پکا نمازی ہو جائے۔