خلاصہ تفسیر
آگے یہ بتلاتے ہیں کہ زمین سے درخت اگانا جیسا ہمارا کام ہے، آگے اس درخت سے تمہارا فائدہ اٹھانا بھی ہماری قدرت و حکمت پر موقوف ہے، جیسا اوپر بھی فرمایا تھا یعنی) اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو چورا چورا کر دیں (یعنی دانہ کچھ نہ پڑے، پتی خشک ہو کر ریزہ ہو جاوے) پھر تم متعجب ہو کر رہ جاؤ کہ (اب کے تو) ہم پر تاوان ہی پڑ گیا (یعنی سرمایہ میں نقصان آ گیا اور نقصان کیا) بلکہ بالکل ہی محروم رہ گئے (یعنی سارا ہی سرمایہ گیا گزرا، آگے تیسری تنبیہ ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو اس کو بادل سے تم برساتے ہو یا ہم برسانے والے ہیں؟ (پھر اس پانی کو پینے کے قابل بنانا ہماری دوسری نعمت ہے کہ) اگر ہم چاہیں اس کو کڑوا کر ڈالیں، تو تم شکر کیوں نہیں کرتے (اور بڑا شکر عقیدہ توحید و ترک کفر ہے، آگے چوتھی تنبیہ ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ جس آگ کو تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو (جس میں سے یہ آگ جھڑتی ہے، جس کا بیان آخر سورئہ یٰس میں آ چکا ہے اور اسی طرح جن ذرائع سے یہ آگ پیدا ہوتی ہے ان ذرائع کو) تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے اس کو (آتش دوزخ کی یا اپنی قدرت عجیبہ کی) یاد دہانی کی چیز اور مسافروں کے لئے فائدہ کی چیز بنایا ہے (یاد دہانی ایک دینی فائدہ ہے اور دوسرا دنیوی فائدہ آگ سے کھانا پکانے کا ہے اور تخصیص مسافر کی حصر کے لئے نہیں، بلکہ سفر میں آگ کمیاب ہونے کے سبب ایک شے عجیب ہوتی ہے اور متاعاً میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ آگ سے فائدہ اٹھانا بھی ہماری قدرت سے ہے) سو (جس کی ایسی قدرت ہے ) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے،(کہ کمال ذات و صفات مقتضی استحقاق حمد و ثنا ہیں اور نام کی تسبیح وغیرہ کی تحقیق آیت آخر سورئہ رحمن میں گزر چکی ہے) (جاری ہے)