حضرت نعما طوس کے مزار پر جنات بھی حاضری دیتے ہیں

دوسری قسط
احمد خلیل جازم
متولی محمد بخش گزشتہ سات برسوں سے حضرت نعماطوسؑ کے مزار کی خدمت پر مامور ہیں۔ اس سے قبل کہ وہ مائی گوہراں کے بارے میں بتاتے، مزار کی تعمیر اور اس کی خوبصورتی کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’بے شک مزار کے تمام معاملات میرے سپرد ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میں یہاں آیا تو مزار کا احاطہ وغیرہ پختہ تعمیر نہیں ہوا تھا، بلکہ کچی زمین تھی۔ مزار کا اندرونی حصہ بھی میں نے ہی آکر تعمیر کرایا۔ مزار کے اندر دیواروں پر ٹائلیں اور شیشے لگوائے۔ اس کے علاوہ احاطے کے اردگرد چاردیواری بھی بنوائی اور یہاں عقبی سمت میں پودے بھی لگوائے۔ اس کے علاوہ دور دراز سے لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں تو اس قصبے میں ان کی رہائش کا انتظام نہیں تھا۔ میں نے یہاں رہائشی کمرے تعمیر کرائے اور پھر غسل خانے اور وضو خانہ تعمیر کرایا۔ یہ سب کچھ صاحب مزار کی نظر خاص کے توسط سے ہی ممکن ہوا۔ ورنہ میری کیا اوقات تھی‘‘۔
محمد بخش نے ایک حیران کن دعویٰ بھی کیا کہ ’’یہاں پر انسانوں کے علاوہ ایک اور مخلوق بھی تسلسل سے حاضری دیتی ہے۔ اگرچہ یہ بہت راز کی باتیں ہیں، لیکن نہ جانے کیوں آپ سے کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ مخلوق کون ہے، کیا ہیں، یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ ان کے سفید، لیکن ریشم کی طرح لباس ہوتے ہیں اور لباس ہی کی طرح روشن چہرے اور لمبی ریش ہوتی ہے۔ ان کا مزار سے کیا تعلق ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ شاید کوئی روحانی تعلق ہے۔ دیکھیں جنات کا تو معلوم ہوجاتا ہے۔ وہ جب حاضری دیتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جنات ہیں۔ لیکن یہ مخلوق کسی اور روحانی تعلق خاطر سے حاضر ہوتی ہے۔ ان کے آنے کے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے ابھی آپ یہاں موجود ہیں تو وہ آجائیں۔ جنات اکثر یہاں حاضری دیتے ہیں۔ لیکن وہ جنات حفاظ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ مزار پر باقاعدگی سے حاضری دیتے اور زبانی کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کی تلاوت حرف بہ حرف سنائی دیتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف حافظ قرآن ہیں، بلکہ ان کے آداب دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہ دین کا علم بھی بہت زیادہ رکھتے ہیں۔ ان جنات کو میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے‘‘۔ کیا اس مخلوق کو بھی کسی اور نے دیکھا ہے؟ اس سوال پر ان کا بتانا تھا کہ ’’چند اور لوگوںکو بھی نظر آتے ہیں۔ دیکھیں جس جگہ مزار واقع ہے، اس کے اردگرد دور دور تک کوئی مکان یا آبادی نہیں ہے۔ یہاں جب کوئی انسان آتا ہے تو وہ جسو سرائے سے نکل کر دور سے ادھر آتا ہوا صاف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس مخلوق کو اس احاطے سے باہر کسی نے نہیں دیکھا۔ وہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں، کچھ معلوم نہیں ہو پاتا۔ یہی عالم دیگر مخلوق کا بھی ہے‘‘۔ دیگر مخلوق سے کیا مراد ہے۔ کیا کچھ اور چیزیں بھی حاضری دیتی ہیں؟ تو محمد بخش کا کہنا تھا ’’جی بالکل، یہاں ایک اور جانور بھی حاضری دیتا ہے، جس کی شکل شیر جیسی دکھائی دیتی ہے، لیکن اسے شیر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ مزار کے بیرونی دروازے پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ میں نے کئی بار اسے دیکھا ہے۔ دیگر لوگوں نے بھی رات کو اسے دیکھا ہے۔ میرا اور اس کا جب بھی سامنا ہوتا ہے، وہ مزار کی مخالف سمت میں غائب ہو جاتا ہے۔ اب وہ کون سا جانور ہے، یہ اللہ جانتا ہے یا پھر جانور کے روپ میں کوئی اور مخلوق ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور جانور بھی اس مزار میں موجود ہے، جسے اکثر گائوں کے لوگوں نے دیکھا ہے اور میں بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ یہ انتہائی سرخ رنگ کا ناگ ہے اور اس کی جلد پر دیگر رنگ کی ڈبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ناگ بہت بڑا ہے۔ کم و بیش پندرہ من کے قریب اس کا وزن ہوگا۔ یہ بھی مسلسل مزار پر حاضر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس پر کسی کی نگاہ پڑتی ہے یا وہ کسی کو دیکھ لیتا ہے تو فوری طور پر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم کہ یہ کیا چیز ہے۔ ان تمام چیزوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ لیکن میرے سمیت کسی شخص نے ان کی کھوج لگانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ کھوج لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ صاحب مزار کی اجازت سے یہ چیزیں یہاں حاضری دیتی ہیں۔ جب وہ کسی پر ان کا ظہور نہیں چاہتے تو ہمیں کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی ان کی کھوج لگانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے صاحب مزار کو یہ بات ناگوار گزرے۔ پھر کیا فائدہ۔ اس لیے ہر کوئی انہیں دیکھ کر ایسے ہی محسوس کراتا ہے، جیسے اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ یہاں لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں، لیکن صاحب مزار کی عقیدت میں کسی سے بات نہیں کرتے۔ آج آپ نے مجھے نہ جانے کیسے مجبور کرلیا کہ آپ کو یہ باتیں بتا رہا ہوں۔ اب مجھے خوف آرہا ہے کہ کہیں صاحب مزار کے غضب کا شکار ہی نہ ہوجائوں‘‘۔ ہم نے محمد بخش کو تسلی دی اور بتایا کہ ہم اس علاقے میں مدفون دیگر انبیاء کے مزارات پر بھی حاضری دے چکے ہیں، اور لکھ بھی چکے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ورنہ ہماری آمد بھی یہاں نہ ہوتی۔ اس بات سے اس کو تھوڑی سی تسلی ہوئی اور اس نے مزید گفتگو کرنا شروع کردی۔
مزار کی خوبصورتی نے دل کچھ ایسا موہ لیا تھا کہ ہم اس کی بیرونی تعمیر کو دیکھتے ہوئے دوبارہ اندورنی سمت جا نکلے۔ اندر قبر کے چاروں جانب انتہائی نرم قالین بچھایا گیا تھا، جس میں پائوں دھنس جاتے۔ مزار کے لوح پر کپڑا چڑھایا گیا تھا۔ ہمارے ساتھ موجود احسان فیصل نے تھوڑا سا کپڑا ہٹایا تو لوح پر کچھ لکھا ہوا دیکھا۔ اس وقت محمد بخش ساتھ نہ تھا۔ ہم نے لوح کے اوپر بندھا سبز کپڑا کھولا، تو نیچے سے خوبصورت لوح برآمد ہوئی، جس پر آپ کا نام نعماطوس لکھا ہوا تھا، اور اس کے ساتھ درج تھا کہ آپ کا اسم گرامی انوارالشمس میں تحریر ہے، جبکہ اس کے تعمیر کنندہ حاجی فرمان کا نام بھی درج تھا۔ مزار کی دیواریں سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی تھیں اور ان میں بڑی اور ہوا دار کھڑکیاں بھی تھیں۔ ہر کھڑکی کے ساتھ خالی دیوار پر شیشے کی خوبصورت رنگ برنگی نقش نگاری کی گئی تھی۔ مزار کی چھت صاف ستھری تھی، جس میں جگہ جگہ پنکھے لگے تھے۔ سرہانے فانونس بھی ایستادہ تھا، اور سرہانے کے دائیں جانب الماری میں قرآن پاک رکھے گئے تھے۔ جبکہ بائیں جانب خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے فریم رکھے ہوئے تھے۔ مزار میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ سرہانے کاغذی پھولوں کے گلدستے بھی اس مزار کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مزار کی سجاوٹ کے عشق میں مبتلا ہے اور اس کا بس نہیںچل رہا کہ وہ دنیا جہاں کی خوبصورت اشیا یہاں لا کر رکھ دے۔ اس قدر خوبصورت ٹائل اور سنگ مرمر کے حوالے سے محمد بخش کا کہنا تھا ’’قبر مبارکہ پر جو پتھر نصب ہے، وہ میں نے نہیں لگوایا تھا۔ بلکہ پہلے متولی بابا فرمان نے نصب کرایا تھا۔ باقی دیواروں کی ٹائل اور شیشہ میں نے گجرات اور گوجرانوالہ سے منگوا کر نصب کرائے تھے‘‘۔ گفتگو کے دوران ایک بار پھر ہم مائی گوہراں کی قبر پر آگئے، تو محمد بخش نے بتایا ’’مائی گوہراں اور بابا لعل یہاں کے قدیم خدمت گار تھے۔ مائی گوہراں چک کمالہ سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ بابا لعل چک کمالہ کے قریب ہی ایک قصبے کے تھے۔ یہ اس وقت خدمت سرانجام دیتے جب خواجہ گوہرالدین یہاں حاضری دیتے۔ وہ جیندڑ شریف سے یہاں تشریف لاتے۔ اس وقت ذرائع آمدورفت ایسے سہل نہ تھے۔ حضرت گوہرالدین تھکان سے چور سفر کرکے یہاں پہنچا کرتے، تو مائی گوہراں آپ کے پائوں دبانے کی کوشش کرتی۔ لیکن حضرت صاحب سختی سے منع کردیتے۔ وہ بضد رہتی کہ آپ کی خدمت کرے گی۔ آخر تنگ آکر حضرت گوہرالدین نے اسے کہا کہ مائی، تم میرے لیے نامحرم ہو۔ شریعت میں اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے مجھے ہاتھ لگا کر خود کو اور مجھے گنہگار مت کرو۔ تو مائی صاحبہ نے کہا کہ آپ مجھے نکاح میں لے لیں، تاکہ میں آپ کے لیے نامحرم نہ رہوں۔ چنانچہ اس کے مجبور کرنے پر حضرت صاحب نے اس سے نکاح کرلیا۔ صاحب مزار کی خواہش پر یہ نکاح کیا گیا اور صاحب مزار نے مائی گوہراں کو کبھی بھی اپنے آپ سے جدا نہ کیا۔ مائی کا نام حضرت گوہرالدین کی نسبت سے مائی گوہراں پڑگیا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو انہیں صاحب مزار کے قدموں میں جگہ ملی‘‘۔
حضرت نعماطوس کے مزار سے رخصت کا وقت ہوا چاہتا تھا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایسی خوبصورت اور پرسکون جگہ سے جانے کو جی نہیں مان رہا تھا۔ مزار کے ساتھ مونجھی صاف کرتے لوگ بھی ہماری گفتگو میں شریک ہوگئے تھے۔ مہدی خان نامی ایک بزرگ نے بتایا کہ ’’میری عمر اسّی برس سے زیادہ ہے، اور میں نے اس قبر کو بچپن سے ہی ایسا دیکھا ہے۔ یہ مزار اہل علاقہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے‘‘۔ ان تمام لوگوں سے رخصت ہوتے ہوئے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ایسے جنگل بیابانوں میں یہ صاحب اسرار لوگ اپنے ٹھکانے کیوں بناتے تھے۔ خدا خبر کسی دور میں یہاں ایک دنیا آباد ہو، جو وقت کے اتار چڑھائو کا شکار ہوگئی ہو۔ اس بائیس گز لمبی قبر میں محو استراحت ہستی کا اپنا ایک اسرار ہے، جو انسانی عقل سے ماورا ہے۔ لوگ انہیں پیغمبر مانتے ہیں اور یہاں سے مرادیں حاصل کرتے ہیں۔ بڑے بڑے بزرگوں نے یہاں سے فیض حاصل کیا۔ اگر کوئی یہاں آکر یقین و گمان میں پھنس جائے تو وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب۔ اب ہمار ا رخ ایک اور قدیمی قصبے موضع مل کی جانب تھا، جہاں ایک اور پیغمبر کے بارے میں بیان کیا جاتا تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment