قاتل ڈور کا شکار عالیان والد کیساتھ کھلونے لینے جارہا تھا

عمران خان
کورنگی میں قاتل ڈور گلے پر پھرنے سے جاں بحق ہونے والا بچہ عالیان اپنے والد کے ساتھ کھلونے لینے جا رہا تھا۔ معصوم عالیان کئی روز سے اپنی والدہ اور والد سے ضد کر رہا تھا کہ اسے ایسے کھلونے لینے ہیں، جیسے اس کے دوستوں کے پاس ہیں۔ گزشتہ شب جب اس کی ضد کے آگے مجبور ہوکر والد عالیان کو اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا کر کھلونے دلانے جانے لگا تو قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
چار سالہ عالیان کے جی ون کا طالب علم تھا اور اسے رواں برس ہی اس کے والدین نے کورنگی کے مقامی اسکول میں داخل کروایا تھا۔ غریب مزدور گھرانے کے چشم و چراغ سے اس کے والدین کو بہت امیدیں تھیں۔ عالیان کی ماہانہ فیس اور دیگر اخراجات پورے کرنے کیلئے والد دن رات مزدوری کر رہا تھا۔ پیر کے روز معصوم بچے کا جنازہ اٹھنے پر کہرام مچ گیا۔ متاثرہ گھر میں تو صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ اہل محلہ میں بھی ہر شخص کی آنکھ اشک بار تھی۔
اس اندوہناک واقعہ کے حوالے سے ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کراچی پولیس چیف امیر شیخ نے بتایا کہ پولیس نہ صرف اس کیس پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے، بلکہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جس میں پتنگ اڑانے والوں کے علاوہ کورنگی کے علاقے میں پتنگ اور مانجا تیار کرکے فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈائون کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ کار شہر بھر میں وسیع کیا جائے گا، تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ شہریوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ پتنگ سازوں اور خطرناک مانجا تیار کرنے والوں کی نشاندہی کریں، تاکہ ان کے خلاف بروقت کارروائی کی جاسکے۔ امیر شیخ کا مزید کہنا تھا کہ واقعہ میں اس نجی اسپتال کی انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے، جس نے بچے کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کے بجائے اس کے والد کو کہا کہ وہ بچے کو جناح اسپتال لے جائے۔ واضح رہے کہ جناح اسپتال لے جاتے ہوئے ہی بچے نے دم توڑ دیا تھا اور جناح اسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی پولیس کو بتایا ہے کہ بچے کا انتقال زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہوا۔
اس افسوسناک واقعے کے بارے میں کورنگی پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار کی شب 4 سالہ عالیان اپنے والد آصف کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ اسی دوران پتنگ کی ڈور اس کے گلے پر پھر گئی، جس کے نتیجے میں بچہ شدید زخمی ہو گیا تھا۔ بچے کے والد کی جانب سے پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب بچے کے گلے پر ڈور پھری تو والد کو بالکل معلوم نہیں ہو سکا، کیونکہ وہ سڑک پر سامنے دیکھ کر گاڑی چلا رہا تھا اور بچے کی جانب سے بھی کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ تاہم جب اس کی نظر عالیان پر پڑی تو وہ لہو لہان دکھائی دیا، جس پر وہ حواس باختہ ہو گیا اور گاڑی روک کر قریب سے گزرنے والے شہریوں کو مدد کے لئے پکارنے لگا کیونکہ خود اس میں گاڑی چلانے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ انتہائی افسوسناک امر یہ کہ قریب سے گزرنے والے کئی شہریوں نے بچے کو لہولہان اور باپ کو روتے دیکھ کر بھی گاڑیاں نہیں روکیں۔ کچھ دیر بعد اس کو کورنگی میں ہی ایک نجی اسپتال پہنچایا گیا جہاں انتظامیہ نے بچے کا باقاعدہ علاج کرنے کے بجائے اس کے والد کو جناح اسپتال جانے کا مشورہ دے ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پولیس کیس ہے اور جناح اسپتال میں ایم ایل او پہلے متعلقہ تھانے میں پولیس کو انٹری کروا کر اطلاع دے گا اور پھر وہیں اس کا علاج ہوگا۔ جس کے بعد بچے عالیان کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہاں پہنچنے میں مزید آدھا گھنٹہ لگا اور ڈاکٹروں نے بچے کی موت کی تصدیق کر دی۔ اس پر اہل خانہ بچے کی لاش کو بغیر قانونی کارروائی کے گھر لے کر آگئے تھے۔
عالیان کی تدفین کورنگی کے مقامی قبرستان میں کی گئی ہے۔ اس موقع پر اہل محلہ اور بچے کے عزیز رشتے داروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کئی شرکا، کا کہنا تھا کہ معاشرے میں مجموعی طور پر بے حسی اور لاپرواہی کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ہمدردی جتانے کے رجحان کے فقدان کی وجہ سے ہی معاشرہ عمومی طور پر تنزلی کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی مثال یہ سامنے آئی ہے کہ شدید زخمی بچے کی مدد کیلئے کسی کار سوار نے رکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
علاقہ مکینوں کا مزید کہنا تھا کہ شہر بھر میں گھروں کی سطح پر پتنگ سازی اور خطرناک مانجا تیار کرنے کی فیکٹریاں موجود ہیں۔ تاہم ان کی سب سے زیادہ تعداد کورنگی، لانڈھی اور ملیر کے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو سندھ حکومت کی جانب سے پتنگ اڑانے پر دفعہ 144 کی پابندی نافذ کی گئی ہے اور نہ ہی ان تھانوں کی پولیس کی جانب سے گھروں میں قائم ان کے چھوٹے کارخانوں کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ حالانکہ کورنگی اور لانڈھی میں جتنی بھی آبادیوں میں گھروں میں پتنگ اور مانجا تیار کرنے کے کار خانے قائم ہیں، ان سب کے حوالے سے متعلقہ تھانوں کی پولیس کو سب کچھ معلوم ہے۔ تاہم معمولی رشوت کے عوض بھی انہیں کاروبار چلانے کیلئے متعلقہ پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس ضمن میں جب کراچی پولیس چیف امیر شیخ سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس ان سب عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں پتنگ اڑانے پر پابندی کے حوالے سے اگر دفعہ 144 کی پابندی نافذ کردی جاتی ہے تو پولیس کو اس کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف پیشگی کارروائیوں کا اختیار حاصل ہو جائے گا جس کے نتیجے میں کورنگی میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کی روک تھام میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment