امت رپورٹ
آسیہ مسیح کا نام تاحال ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا۔ اس کے سبب تحریک لبیک پاکستان کو خدشہ ہے کہ حکومت ملعونہ کو دبے پائوں ملک سے فرار کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے سو سے زائد کارکنوں کو اب تک رہا نہیں کیا ہے۔ ان میں سے 50 کا تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سے ہے۔ ان تمام کو آسیہ ملعونہ کی بریت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کئے جانے والے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ٹی ایل پی کے کارکنوں پر درج درجنوں مقدمات نہ صرف ابھی تک ختم نہیں کئے گئے، بلکہ مزید نئے مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹی ایل پی کے ذرائع کے مطابق اس ساری صورت حال کے پیش نظر پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اپنی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ پارٹی اس وقت 12 ربیع الاول کے جلسوں کے انتظامات میں مصروف ہے۔ لیکن معاہدے کے خلاف حکومت کی بڑھتی سرگرمیوں اور عوام میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے بغیر کسی تاخیر کے پارٹی کی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی، تاکہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں اہم فیصلے کئے جا سکیں۔ یہ طویل اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے شروع ہوا اور اس کے اختتام پر حکومت کو ایک اور الٹی میٹم دے دیا گیا ہے۔ جس میں کسی بھی وقت دوبارہ احتجاج کی کال دی جا سکتی ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہی، وہیں بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلاً وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کا یہ بیان میڈیا پر چلایا گیا کہ تحریک لبیک کے قائدین نے معافی مانگ لی ہے، جو کہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اس کی تردید کے لئے تحریک کے ترجمان کو بیان جاری کرنا پڑا کہ نہ معافی مانگی گئی اور نہ اس طرح کا کوئی ارادہ ہے۔
ٹی ایل پی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں لبیک تحریک کے ناظم نشر و اشاعت پیر اعجاز اشرفی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کل 5 اہم فیصلے کئے گئے۔ ان میں سے آخری تین کا تعلق پارٹی کے اپنے معاملات سے ہے، جبکہ دیگر دو فیصلوں میں طے کیا گیا کہ اگر آسیہ ملعونہ کی سزا بحال نہیں کی گئی اور اسے ملک سے فرار کرا دیا گیا تو تحریک لبیک پاکستان راست قدم اٹھائے گی۔ دوئم یہ کہ اگر معاہدے پر عمل درآمد میں مزید تاخیر کی گئی تو حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ ایک سوال پر پیر اعجاز اشرفی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے ٹی ایل پی سے جو پانچ نکاتی معاہدہ کیا تھا۔ اس کے کسی ایک نکتے پر بھی عمل نہیں کیا گیا ہے۔ نہ اب تک آسیہ ملعونہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا اور نہ ہی نظر ثانی کی پٹیشن کی سماعت کے لئے کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آسیہ مسیح کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں شامل کرنے کے لئے قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح ابھی تک ہمارے بہت سے کارکنان گرفتار ہیں اور ان پر مقدمات درج ہیں۔ جبکہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جبکہ معاہدے میں درج ہے کہ آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف اکتوبر اور اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں، ان افراد کو فوری رہا کیا جائے گا‘‘۔ اعجاز اشرفی کے بقول اس طرح حکومت نے معاہدے کی کسی شق پر عمل نہیں کیا ہے۔ جسے مد نظر رکھ کر تحریک لبیک پاکستان آئندہ کی حکمت عملی طے کر رہی ہے۔ اس سوال پر کہ تحریک کے بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ دوبارہ احتجاج کی کال دی جا سکتی ہے۔ کیا یہ کال 12 ربیع الاول کے بعد دی جائے گی؟ اعجاز اشرفی کا جواب تھا ’’یہ کال ایک گھنٹے، پانچ گھنٹے، ایک دن، دو دن، پانچ دن اور ایک ہفتے، کسی بھی وقت دی جا سکتی ہے۔ وقت کا انتخاب پارٹی قیادت کے مشورے سے کیا جائے گا۔ تاہم ممکنہ احتجاج کے لئے ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی جا چکی ہے‘‘۔
ادھر اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ حکومت آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے لئے متعلقہ ذمہ داران کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ میڈیا میں اس نوعیت کے سوال کا جواب یہ دیا جائے کہ اگر سپریم کورٹ نے حکم دیا تو وزارت داخلہ آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دے گی۔ حالانکہ بیشتر کیسوں میں وزارت داخلہ نے عدالتی احکامات کے بغیر کئی نام ای سی ایل میں ڈالے ہیں۔ ذرائع کے بقول آسیہ مسیح کا ایشو قدرے مختلف ہے۔ کیونکہ اس معاملے پر حکومت پر بہت زیادہ بیرونی دبائو ہے۔ آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے بارے میں حکومت کیا ارادہ رکھتی ہے؟ اس کا عندیہ دو ہفتے قبل وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی دے چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ’’جب تک اس کیس میں آسیہ میسح قصور وار قرار نہیں دے دی جاتی اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اور یہ کہ سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کی بریت کا جو فیصلہ سنایا ہے، حکومت اسے برقرار رکھے گی‘‘۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کے بقول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آسیہ مسیح کو فوری پاکستان سے باہر نکالنے کے لئے بیرونی دبائو حکومت پر بڑھتا جا رہا ہے۔ بالخصوص یورپی یونین، کینیڈا، اٹلی اور امریکہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔
ادھر ویٹی کن سٹی میں رومن کیتھولک چرچ کی مشنری نیوز ایجنسی Agenzia fides نے پاکستان میں کرسچن کمیونٹی پر دہشت گرد حملوں کے خطرے کا دعویٰ کیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے بقول پولیس نے پاکستان کے تمام کرسچن اداروں کے رہنمائوں کو انتباہی لیٹر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسیہ مسیح کیس کے تناظر میں ان پر ممکنہ دہشت گرد حملے کئے جا سکتے ہیں۔ نیوز ایجنسی کے دعوے کے مطابق پولیس کی جانب سے جاری لیٹر میں کہا گیا ہے کہ آسیہ مسیح کی بریت کے ردعمل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار جیسی دہشت گرد تنظیمیں عیسائی کمیونٹی پر حملے کرنے کی پلاننگ کر رہی ہیں۔ لہٰذا کرسچن ادارے چوکنا رہیں۔ کرسچن نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں پشاور میں ’’چرچ آف پاکستان‘‘ کے سربراہ بشپ ہمفیری پیٹرس کی بات چیت بھی شامل کی ہے۔ جس میں بشپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پولیس نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ شہر میں گرجا گھروں کے تحفظ کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ٭