حضرت حمیالان کے مدفن کی نشاندہی حافظ شمس الدین نے کی

احمد خلیل جازم
جسو سرائے سے حضرت نعماطوسؑ کے مزار پر حاضری کے بعد امت ٹیم نے اعوان شریف کا رخ کیا۔ اعوان شریف کی وجہ شہرت اگرچہ قاضی سلطان محمود کی وجہ سے ہے، جنہوں نے کشف القبور کے توسط سے انبیاء کی قبور کی تصدیق کی۔ لیکن اس کے ساتھ جنوبی جانب ایک قدیم قصبے مل میں گھنے درختوں کے درمیان مغربی سمت میں حضرت حمیالانؑ کا مزار بھی واقع ہے۔ آپ کی قبر نو گز لمبی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت حمیالان کو پیر لنگر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور اردگرد کے گائوں کے زیادہ تر لوگ اسی نام سے جانتے ہیں۔ جس جگہ یہ مزار واقع ہے، وہاں درجنوں قدیم درختوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ درخت بہت گھنے اور سایہ دار ہیں۔ بعض برگد کے درخت تو بہت زیادہ قدیم ہیں۔ فیصل کنجاہی کا کہنا ہے کہ ’’قاضی سلطان محمود کو صاحبِ مزار سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔ وہ اکثر و بیشتر اعوان شریف سے قصبہ مل مزار پر حاضری دیتے تھے‘‘۔ حضرت حمیالانؑ کے مزار کی نشان دہی بھی حافظ شمس الدین نے کی اور ان کی کتاب انوارالشمس کے صفحہ 337 پرصاحب مزار کا نام حضرت حمیالانؑ درج ہے، اور انہیں حضرت ہارون کی اولاد سے بتایا گیا ہے۔ بعد میںقاضی سلطان محمود نے بھی تصدیق کی‘‘۔ قاضی سلطان محمود کی کتاب ’مقامات محمود‘ میں قبر کا تذکرہ کیا گیا اور تحریر ہے کہ اس کے شمال کی جانب بہت بڑا ٹیلہ ہے‘‘۔
امت ٹیم کافی تگ و دو کے بعد موضع مل پہنچی۔ دور تک پیدل سفر کرکے کھیتوں کے درمیان سے مزار تک جانا ممکن ہوا۔ مزار کے ساتھ صرف ایک ہی گھر تھا، جس میں متولی خاندان آباد تھا۔ یہاں ایک عورت گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔ اس سے مزار کے متولی کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ ’’یہاں متولی سید مہدی شاہ بخاری ہیں، جو ان دنوں بیمار ہیں‘‘۔ یہ عورت مہدی شاہ کی بیوی کبریٰ بی بی تھی۔ ہم نے کبریٰ بی بی سے صاحب مزار، اور ان کے بارے میں معلوم کیا تو اس کا کہنا تھا ’’ہم کئی نسلوں سے یہاں موجود ہیں۔ صاحب مزارنے ہمارے بڑے دادا عمر شاہ کو یہاں بلایا، اسے حکم دیا کہ میری قبر کو آباد کرو۔ لیکن عمر شاہ یہ سوچ کر جھجھک گئے کہ ہم اس بیابان میں کیسے آسکتے ہیں۔ چنانچہ اعوان شریف سے قاضی صاحب نے یہاں آکر اسے آباد کیا‘‘۔ اس موقع پر فیصل کا کہنا تھا کہ ’’جب قاضی صاحب نے یہاں پر حاضری دینی شروع کی تو آپ کو اپنے ساتھ چند طالب علم رکھنے اور دینی تدریس کی بھی اجازت مل گئی۔ اسی بارے میں ایم زمان اپنی کتاب آئینہ گجرات میں لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب کو اس شرط پر اجاز ت ملی کہ یہاں کوئی غیر شرعی عمل نہ ہو۔ چنانچہ قاضی صاحب اکثر مزار پر حاضر ہوکر چادر نیچے بچھاتے اور خاموشی سے زمین پر ایک کروٹ لیٹ جاتے، کسی سے کوئی کلام نہ کرتے۔ آپ نماز عصر پڑھنے کے بعد لحد پر حاضر ہوتے اور کسی خدمت کی درخواست کرتے۔ چالیس روز بعد مزار کی تعمیر کا حکم ملا۔ چنانچہ انہوں نے یہ کام فوری طور شروع کردیا۔ قاضی صاحب نے یہاں نوافل کا سلسلہ شروع کردیا، جو بہت طویل ہوتے۔ اس کے بعد مختلف وظائف مثلاً آیۃ الکرسی، آیۃ النور پڑھتے۔ یہ وظائف مزار کی تعمیر کی اجازت کے سلسلے میں ہوتے۔ جب آپ کو اجازت مل گئی تو آپ نے مزار کی تعمیر شروع کرادی۔ یہ مزار پلنگ نما چارپائی کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔ پہلے مزار پر چھت نہیں تھی، لیکن بعد ازاں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا اور چھت ڈال دی گئی‘‘۔
کبری بی بی کا کہنا تھا ’’جس وقت مزار کی تعمیر نو ہوئی اس وقت اس کی مزدوری ساٹھ روپے ادا کی گئی۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ اس وقت ہمارے بزرگوں کو کہا گیا کہ مزار کی تعمیر نو کی جائے، اور مزار کے سرہانے سات قدم ناپ کرکے کھدائی کی جائے۔ چنانچہ سات قدم بعد جب کھدائی کی گئی تو وہاں سے اینٹیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ اگر چہ یہ قدیم اینٹیں تھیں، لیکن بڑی تعداد میں اینٹیں نکلیں۔ جن سے مزار کی تعمیر شروع کی گئی۔ ساٹھ روپے اس وقت بڑی رقم تھی۔ لیکن ہمارے بزرگوں کو بتایا گیا کہ صبح قبر کے سرہانے حاضری دیں، مزدوری مل جائے گی۔ صبح وہاں جاکر حاضری دی تو دیکھا مطلوبہ رقم سرہانے موجود تھی، جو مستریوں کو ادا کردی گئی۔ ایک وقت تھا یہاں پانی نہیں تھا، اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ یہاں کھڑی شریف والے میاں محمد بخشؒ کاندھے پر ڈنڈا ڈولی کرکے دو ڈول دور سے بھر کے لایا کرتے تھے۔ حضرت میاں محمد بخشؒ نے بارہ برس یہاں سے فیض حاصل کیا اور پانی بھرتے رہے۔ ہمارے بزرگوںکو پانی کی بہت تنگی رہی اور صاحب مزار سے مسلسل پانی کے لیے دعا کرتے رہے۔ چنانچہ خواب میں کنویں کی جگہ دکھائی گئی، جو مزار کے پائنتی کی جانب کچھ فاصلے پر تھی۔ وہاں پر کھدائی شروع کی گئی اور پانی نکل آیا۔ پہلے اس علاقے میں زمین سے پانی نہیں نکلتا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ کنویں کی وہ جگہ اب بھی قائم ہے اور پانی نکل رہا ہے۔ لیکن اب وہاں موٹر لگا دی گئی ہے۔ یہ جو بڑی سی پانی کی ٹینکی آپ دیکھ رہے ہیں، اس میں پانی وہیں سے آرہا ہے‘‘۔ ہم نے مائی سے پوچھا کہ اس قبر کے علاوہ یہاں اور کوئی قبر نہیں؟ تو اس کا بتانا تھا ’’یہاں کچھ ڈھیریاں ہیں، خدا خبر یہ قبور ہیں یا ویسے مٹی ہے‘‘۔ مزار پر کچھ مٹی کے گھگھو گھوڑے اور کچھ مٹی کی ہانڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اس بارے میں مائی کا کہنا تھا کہ ’’یہ چیزیں لوگ منت کے طور پر یہاں رکھ جاتے ہیں۔ جب عرس ہوتا ہے اس وقت بہت لوگ آتے ہیں۔ آپ کا عرس جون کی پندرہ تاریخ کو ہوتا ہے۔ یہ زمین سولہ کلہ ہے، جس کے عین درمیان میں آپ کا مزار ہے‘‘۔ صاحب مزار کی کئی کرامات کے بارے میں کبریٰ بی بی نے ایک زبان زد عام واقعہ بتایا کہ ’’میرے دادا مردان علی شاہ یہاں ایک کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ ساتھ والے کمرے میں ڈھور ڈنگر موجود تھے۔ علاقے میں ایک بدنام زمانہ مویشی چور تھا، جسے ہزارے کا چوہا کہا جاتا تھا۔ اس نے ایک رات مویشی چرانے کی ٹھانی۔ رات کو جب وہ یہاں آیا تو جیسے ہی کسی مویشی کی رسی کھولتا تو اس کی بینائی چلی جاتی۔ وہ دبارہ باندھتا تو بینائی لوٹ آتی۔ یہ صورتحال دیکھ کر وہ بہت گھبرایا۔ باہر آیا اور صاحب مزار کے قدموں میں جاکر توبہ کی۔ اس کے بعد اس نے ساری زندگی چوری نہیں کی‘‘۔
حضرت حمیالانؑ کے مزار کا اندرونی حصہ نسبتاً تنگ ہے۔ اندر ہر طرف پھول کلیاں لگی ہوئی تھیں۔ قبر تکونی شکل کی اونچائی رکھتی ہے، اور اس پر سرخ رنگ کی چادریں بچھی ہوئی ہیں۔ قبر کے چاروں طرف سفید و سیاہ سنگ مرمر لگا ہوا ہے۔ سرہانے کی طرف ایک کھڑکی میں قرآن پاک رکھے ہیں، جبکہ عین سرہانے دیوار میں کھلی جگہ پر چراغ پڑے تھے۔ یہاں اکثر دولہے حاضری دیتے ہیں، جو برکت کے لیے اپنی کلاہ یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس وقت بھی اندر کلاہ ٹنگی تھی، جبکہ مزار کے احاطے سے باہر عقبی سمت میں بے شمار کلاہ پڑے تھے جو ضائع ہوچکے تھے۔ مزار کا بیرونی احاطہ بھی اتنا کھلا نہیں ہے، مشکل سے دو لوگ اکٹھے چل سکتے ہیں۔ بیرونی احاطے کی ایک جانب چھوٹا سا لوہے کا گیٹ لگا ہوا ہے۔ قبر کے سرہانے کوئی لوح نہیں۔ قبر کا چبوترہ خاصہ بلند ہے۔ اگر قبر کے ساتھ کھڑے ہوں تو قبر کی اونچائی انسان کے سینے تک دکھائی دیتی ہے۔ سرہانے والی دیوار پر زیادہ تر لکڑی کا کام ہوا ہے اور اسی لکڑی میں بغیرکواڑوں کے الماریاں بنی ہوئی ہیں۔ جن میں قرآن کریم کے علاوہ مختلف اشیاء عقیدت مندوں نے رکھی ہوئی ہیں۔ مزار کے دائیں بائیں روشنی اور ہوا کے لیے کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں، جن سے قدرے ہلکی روشنی ہوا سمیت داخل ہوتی ہے۔ یہ مزار دور سے بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ صرف مزار سے کچھ دوری پر ایک چھوٹی سے مسجد دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اسی مسجد سے آگے چلیں تو گھنے درختوں میں گھرا ہوا یہ مزار ایک تمکنت سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اگرچہ دور دراز ہونے کے باعث یہاں عام حالات میں لوگوں کا آنا ممکن نہیں، لیکن عرس کے دنوں میں مقامی لوگوں کے مطابق یہاں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے، اور ملک بھر سے لوگ زیارت اور مرادیں مانگنے آتے ہیں۔ ایسے بھیدوں بھرے مزارات اس علاقے میں کئی مقامات پر ہیں۔ بعض کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور بعض کوئی تاریخ نہیں رکھتے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment