مدنی بڑھیا اور عشق رسالت

غزوئہ احد میں مسلمانوں کو بہت ہی اذیت پہنچی اور حضور نبی کریمؐ کے پیارے چچا سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ سمیت 70 صحابہ کرامؓ کے شہید ہونے کی جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو خواتین پریشان ہو کر تحقیق حال کیلئے اپنے گھروں سے نکل پڑیں۔ اس دوران نبی کریمؐ کی شہادت کی افواہ بھی پھیل چکی تھی۔
ایک انصاری معمر خاتون کے اہل خانہ بھی جنگ میں شریک تھے، جن میں ان کا شوہر، والد، بھائی اور بیٹے شامل تھے۔ وہ بھی لاٹھی کے سہارے میدان احد کی طرف چل پڑیں۔ جب انہوں نے مجمع کو دیکھا تو بے تابانہ پوچھا کہ حضور پاکؐ کیسے ہیں؟ تو ایک صحابیؓ نے کہا کہ تمہارے والد شہید ہوگئے تو انہوں نے انا للہ پڑھی اور پھر بے قراری سے حضورؐ کی خیریت دریافت کی۔ اتنے میں کسی نے ان کے خاوند، کسی نے بھائی اور کسی نے بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی، مگر محبت نبویؐ میں سرشار و بے قرار اس بلند مرتبہ صحابیہؓ نے پوچھا کہ آقا کریمؐ کیسے ہیں؟
لوگوں نے جواب دیا کہ حضورؐ بخیر و عافیت ہیں اور تشریف لا رہے ہیں۔ اس سے بھی انہیں اطمینان نہ ہوا تو کہنے لگیں کہ مجھے بتا دو کہ پیارے آقاؐ کہاں ہیں۔ لوگوں نے اشارہ کرکے بتایا کہ اس مجمع میں ہیں۔ یہ دوڑی ہوئی گئیں اور اپنی آنکھوں کو دیدار مصطفیؐ سے منور کرکے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی زیارت ہو جانے کے بعد ہر مصیبت ہلکی اور معمولی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رحمت دو عالمؐ کا کپڑا مبارک پکڑ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ زندہ سلامت ہیں تو مجھے کسی اپنے کی شہید ہونے کی پروا نہیں۔ جناب حفیظ جالندھریؒ نے اس ایمان افروز واقعہ کی کیا ہی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ فرماتے ہیں:
چلی تھی اک ضعیفہ جستجوئے حال کرنے کو
کسی اچھی خبر کا بڑھ کر استقبال کرنے کو
گئے تھے جنگ میں اس کا برادر اور شوہر بھی
نچھاور کر دئیے تھے اس نے فرزندوں کے گوہر بھی
ملے راستے میں ان سب کے شہادت کے پیغام اس کو
سنائے جا رہے تھے ہر خاص و عام اس کو
مگر اس کی زباں پر ایک ہی اسم گرامی تھا
اسی کا نامِ نامی تھا جو مظلوموں کا حامی تھا
بھائی کا، نہ بیٹوں کا، نہ شوہر کا خیال آیا
رسول اللہؐ کیسے ہیں یہ لب پہ سوال آیا
کہا کہ چل کر دکھا دو مجھ کو صورت کملی والے کی
کہ ان تاریک آنکھوں کو ضرورت ہے اجالے کی
نظر آیا کہ ہاں جلوہ فگن نورِ تجلی ہے
پکار اٹھی کہ اب میری تسلی ہی تسلی ہے
تسلی ہے، پناہ بے کساں زندہ سلامت ہے
کوئی پروا نہیں، سارا جہاں زندہ سلامت ہے
بعثت ِ نبویؐ کی خوشخبری!
کتب احادیث میں متعدد روایات ایسی ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کی بعثت سے پہلے لوگوں نے بت خانوں سے غیبی آوازیں سنیں کہ اب نبی آخر الزماںؐ کا ظہور ہو چکا ہے اور بت خانوں کی بربادی کے دن قریب ہیں، مثلاً بخاری میں حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ ایک روز میں (زمانہ جاہلیت میں) بتوں کے پاس سویا ہوا تھا کہ ایک شخص گائے کا بچہ لے کر آیا اور بتوں کے سامنے اس کی قربانی کی۔ یکایک اس بچھڑے کے پیٹ کے اندر سے بڑے زور سے چیخنے کی آواز آئی۔ آواز یہ تھی:
’’اے جلیج یہ امر نجات دینے والا ہے، ایک فصیح مرد کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں‘‘ لوگ یہ دہشت ناک اور پُر اسرار آواز سن کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں وہیں اس فکر میں کھڑا رہا کہ اس آواز کی حقیقت معلوم کروں۔ کچھ دیر بعد یہی آواز دوبارہ آئی اور پھر تیسری مرتبہ یہی آواز بلند ہوئی۔ اس واقعہ کے تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سنا کہ محمدؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کلمہ توحید پڑھتے ہیں۔ (صحیح بخاری)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment