اقبال اعوان
کراچی کے قدیم تجارتی مرکز لائٹ ہائوس اور آرام باغ میں دکانیں توڑنے کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔ منہدم ہونے والی 600 دکانوں کے مالکان، میئر کراچی وسیم اختر کو بددعائیں دیتے رہے۔
’’امت‘‘ کو ایک دکان دار محمد یاسین نے بتایا کہ سانحہ عاشورہ (2010ئ) میں بھی ان کی دکان جل گئی تھی۔ ان کی 50 سال کی محنت پر پانی پھر گیا تھا۔ بعد ازاں قرض لے کر رضائی اور کمبل کا کام شروع کیا تھا، جسے توڑ دیا گیا۔ اس ایک دکان سے 38 افراد کی روزی روٹی وابستہ تھی، جبکہ قرضہ بھی اتار رہے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ 1956ء میں اس کے والد رحمت خان نے یہ دکان حاصل کی تھی، جو اب تباہ کر دی گئی ہے۔ محمد یاسین نے بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کی دکانوں کو مسمار کرنے کے دوران کہا جاتا رہا کہ لائٹ ہائوس اور دیگر مارکیٹوں کا بھی نمبر آئے گا۔ تاہم کوئی نوٹس نہیں دیا گیا کہ کس دن آپریشن ہوگا۔ پیر کو صبح اس نے دکان کھولی ہی تھی کہ بھاری مشینری آگئی۔ کے ایم سی کے افسران اور سٹی وارڈن اس طرح مارکیٹ پر جھپٹے کہ جیسے جنگ کرنے آئے ہیں۔ افسران نے صرف آدھے گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ اس کی دکان پر 4 لاکھ روپے سے زائد لگ چکے تھے۔ جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو صف ماتم بچھ گئی کہ اب دو وقت کی روٹی کہاں سے آئے گی۔ گھر والے غمزدہ کہ متبادل جگہ بھی نہیں مل رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کی آڑ لے کر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ، میئر کراچی آپریشن کراتے ہوئے ذرا احساس کرتے کہ لیز دکانوں کو توڑا جارہا ہے۔ فٹ پاتھ، پارکوں، میدانوں، نالوں، سڑکوں کے کنارے تجاوزات 30 سال تک میئر کراچی کے سامنے قائم رہیں اور بھتہ وصولی کی جاتی رہی۔لائٹ ہائوس کے ایک دکاندار آصف عثمانی کا کہنا تھاکہ 1957ء میں اس کے دادا محمد یامین نے دکان لی تھی اور والد کامل عثمانی کے بعد اب اس نے اور بھائی شاہد عثمانی نے یہاں جیکٹوں کا کام شروع کیا تھا۔ وہ بیرون ملک سے پرانی جیکٹس منگواتے تھے۔ ان کی رہائش دستگیر بلاک 9 میں ہے۔ پیر کے روز ان کے بھائی شاہد عثمانی دکان پر آئے ہی تھے کہ چند گھنٹے بعد دکانیں مسمار کی جانے لگیں۔ یہ سب دیکھ کر بھائی کے دل میں تکلیف شروع ہوگئی۔ ایک دکاندار نور محمد کا کہنا تھا کہ اس کی رہائش اسلامیہ کالونی منگھو پیر روڈ کے علاقے میں ہے۔ اس کی دکان چار بھائیوں نے مشترکہ سرمایہ لگا کر کھولی تھی۔ لگ بھگ 45 لاکھ روپے لگایا تھا۔ چاروں بھائی جہاں کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے تھے، وہاں قرضہ بھی اتارتے تھے۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں، جن کے جہیز اکٹھے کئے جارہے ہیں۔ چار ماہ بعد اسے بیٹی کی شادی کرنا تھی۔ اب ان پر یہ آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکم فٹ پاتھ اور سڑکیں کلیئر کرانے کا تھا، اس میں کے ایم سی مارکیٹیں کہاں سے آگئیں۔ 50 سالہ کاروبار کو اچانک ختم کر دیا گیا۔ ان کی زندگی بھر کی پونجی برباد کر دی۔ یہ دکانوں کا ملبہ جو دیکھنے میں کچرا لگ رہا ہے، اس میں دکانداروں کے خون اور پسینے کی کمائی شامل ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تاجروں کو گولی مارو اور اس کے بعد ان کا معاشی قتل عام کرو۔ اب یہ بیوی بچوں کو لے کر کدھر جائیں گے۔ ایک دکاندار یاسین شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے جب ڈینسو ہال اور جامع کلاتھ مارکیٹ کے درمیان فٹ پاتھ پر پتھارا لگایا تھا تو اس وقت ایوب خان نے لائٹ ہائوس پر دکان کی جگہ دلائی تھی۔ بعد میں ان کے والد نے دکان پکی کر لی۔ ان کی دکان میں ریڈی میڈ کپڑے فروخت ہوتے تھے۔ وہ 3 بھائی دکان چلاتے تھے اور 5 مزدور رکھے ہوئے تھے۔ اس طرح 8 خاندانوں کے 47 افراد کی اس دکان سے روٹی ملتی تھی۔ تاجر رہنما حکیم شاہ کا کہنا تھا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ صرف آدھے گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ ان کے رشتے داروں کی لائٹ ہائوس میں 3 دکانیں تھیں۔ بڑی مشکل سے ان میں سے کچھ سامان نکالا اور باقی کو مشینری نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ احتجاج کریں، قانونی چارہ جوئی کریں۔ میئر کراچی ملاقات کرنے سے گریز کررہے ہیں، جبکہ فورس کے ساتھ سپریم کورٹ کے آرڈر کی سپورٹ لے کر مرضی سے مارکیٹوں پر ہلہ بول رہے ہیں۔ 50 سالہ پرانی دکانیں گرائی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دکانداروں کو ملا کر کمیٹی بنائی ہے کہ لیز دکانداروں کو متبادل جگہ اور نقصان کا ازالہ دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ دو وقت کی روٹی کما سکیں۔ بصورت دیگر میئر کراچی کے دفتر کے آگے اس وقت تک دھرنا دیں گے جب تک متبادل جگہ اور نقصان کے ازالے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ دکاندار ان کے پاس روتے ہوئے آرہے ہیں۔ اس سے قبل سانحہ عاشور پر بھی لائٹ ہائوس مارکیٹ شرپسندوں نے جلا دی تھی، اب 8 سال بعد میئر کراچی ان کی روٹی کے درپے ہیں۔ ایک دکاندار محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ ان کی دکان سے 3 بھائی اور 8 ملازمین کے خاندان پل رہے تھے۔ 1960ء سے قائم دکان کو چند لمحے میں گرا دیا گیا۔ دکاندار مرزا علی کا کہنا تھا کہ وہ جیکٹس بیرون ملک سے منگوا کر ملک بھر میں بھجواتے تھے۔ ان کی دو دکانیں تھیں اور ملازمین کو ملا کر 17 خاندان کو دو وقت کی روٹی مل رہی تھی۔ انہوں نے 70 لاکھ روپے کا قرضہ لے کر کام شروع کیا تھا کہ یہ مصیبت آگئی۔جامع کلاتھ مارکیٹ کی دکان نمبر 77 کے مالک سید اخلاص حسین خود دکان خالی کرا کے شٹر نکلوا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بریانی کی دکان 50 سال سے قائم ہے اور 2002ء میں یہ دکانیں لیز کر کے کرایہ پر دی گئی تھیں۔ ان کا اس جگہ لاکھوں روپے کا کاروبار چل رہا تھا۔ ان کی فیملی کے ساتھ 5 ملازمین کے خاندان کی روٹی روزی نکل رہی تھی۔ جامع کلاتھ مارکیٹ میں منگل کی صبح صبح ہیوی مشینری لاکر کھڑی کر دی گئی اور دکانداروں کو کہا گیا کہ ایک گھنٹا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قرضہ لے کر کاروبار چل رہا تھا۔ ایک بیٹی کی شادی سر پر تھی۔ اب سب کچھ برباد ہو گیا۔ ایک دکاندار سلیمان کا کہنا تھا کہ تاجر ایسوسی ایشن والے کہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دکاندار شدید دبائو کا شکار ہیں۔ بچوں کی تعلیم، بچیوں کی شادی، قرضہ واپس کرنا اور دو وقت کی روٹی سمیت دیگر مسائل کس طرح حل کریں گے؟ محمد ناظم کا کہنا تھا کہ سارے قوانین تاجروں پر فٹ کئے جارہے ہیں۔ ان کے گھروں پر فاقے ہورہے ہیں۔ محمد نوید کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس بات کا ازخود نوٹس لیں کہ کے ایم سی کی دکانیں کیوں گرائی جارہی ہیں۔
٭٭٭٭٭