عدالت اعظم سواتی کو وزارت سے برطرف کرسکتی ہے

نجم الحسن عارف
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کیس میں جے آئی ٹی کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے بعد پی ٹی آئی حکومت مزید پھنس گئی ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ پارٹی کے ایک بڑے اسپانسر کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی عدالت کے ممکنہ فیصلے اور جے آئی ٹی رپورٹ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے اپنے سیکریٹری جنرل اور پارٹی کے سب سے بڑے فنانسر جہانگیر ترین کے لیے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا تھا اور اس سلسلے میں عدالت کے مقابل آنے کی کوشش نہیں کی تھی تو اب سینیٹر اعظم خان سواتی کیلئے کیونکر عدالتی فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ ان ذرائع کے مطابق اگرچہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی پیر کے روز سامنے آنے والی رپورٹ کے بعد پی ٹی آئی کا اپنے سینیٹر اعظم سواتی کے حوالے سے کیس مزید کمزور ہوگیا۔ جبکہ اس سے پہلے پارٹی کے اندر ان کیلئے نسبتاً زیادہ حمایت پائی جاتی تھی۔ ذرائع کے بقول ابھی تک یہ رپورٹ عدالت نے پبلک نہیں کی۔ لیکن پارٹی میں ایک بڑے حلقے کو خدشہ ہے کہ اگر جے آئی ٹی رپورٹ فوری پبلک ہوگئی تو اس سے حکومت کیلئے ابتدائی سو دنوں کے ماحول میں ہی نیا اور بڑا دھچکا ہو سکتا ہے۔ پارٹی کے لوگ اس بارے میں بھی تشویش میںمبتلا ہیں کہ جے آئی ٹی نے اگر اعظم سواتی کے امریکہ جانے پر عائد پابندی اور اس کی وجوہات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنالیا تو اس سے تحریک انصاف کو اخلاقی اعتبار سے ایک اور دھچکا لگے گا۔ اسی لیے اعظم سواتی کے ساتھ پی ٹی آئی قیادت یا حکومت کو زیادہ جھکاؤ کا تاثر نہیں بننے دینا چاہیے، کہ پاکپتن ڈی پی او، اور گوجرانوالہ ڈی سی ایسے واقعات پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں بابر اعوان بھی ایک کرپشن کیس کی وجہ سے بطور مشیر وزیر اعظم اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں ۔ اب خیبرپختون سے پی ٹی آئی کے اس اہم سینیٹر کے خلاف عدالت عظمیٰ نے آئین کی دفعہ 62 کے تحت کارروائی کر دی تو بڑی مشکل صورت حال پیدا ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ ماہ اکتوبر میں اعظم سواتی اس وقت خبروں کا موضوع بن گئے، جب ان کے اوپر الزام عائد ہوا کہ ان کی وجہ سے وزیر اعظم نے آئی جی اسلام آباد کو قاعدے اور ضابطے کے بجائے اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر ان کی ذمہ داری سے الگ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی خبر سامنے آئی کہ آئی جی پولیس اسلام آباد نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر، اعظم سواتی کے کہنے پر ان کے غریب ہمسایوں کے خلاف کارروائی کا یقین نہیں دلایا تھا۔ بلکہ وفاقی وزیر کی طرف سے غریب پڑوسیوں کے خلاف کارروائی کے لئے 38 فون کالوں کے بعد وزیر موصوف کا فون سنا۔ اس پر وفاقی وزیر نے ناراض ہو کر وزیراعظم عمران خان سے آئی جی پولیس اسلام آباد کی شکایت کی۔ جنہوں نے آئی جی کو فوری طور پر تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس امر کا نوٹس لیا۔
وفاقی وزیر کے غریب پڑوسیوں نے بعد ازاں فریق ثانی کو معاف کر دیا، لیکن عدالت عظمیٰ نے معاملے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں ماہ نومبر کے شروع میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی تھی، جس نے پیر کے روز ڈی جی نیب عرفان منگی کی زیر قیادت اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں وفاقی وزیر اور ان کے ملازمین کو قصور وار ثابت کیا گیا ہے۔ تقریباً تین ہفتے میں مکمل ہونے والی جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کے سلسلے میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے علاوہ پولیس کے متعلقہ حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مزید کئی افراد سے معلومات حاصل کی گئیں۔ جے آئی ٹی کے ارکان نے وفاقی وزیر کے فارم ہائوس کے اردگرد آباد افراد سے بھی اس بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ جبکہ فریقین کے بارے میں پولیس ریکارڈ بھی معلوم کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عدالتوں کے مقابل آنے کی پالیسی رکھتی ہے نہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہے جس سے قانون اور عدالت کی بالادستی پر حرف آتا ہو۔ اس لئے عدالت اس بارے میں جو بھی فیصلہ کرے گی، اسے قبول کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں ایک نام چونکہ وزیر اعظم عمران خان کا بھی آتا ہے کہ آئی جی کے تبادلے کے لئے اصل حکم انہوں نے ہی دیا تھا، لہٰذا اس معاملے کو حکومت جتنا اہمیت دے گی یا عدالت کو ناراض کرے گی، اس کیس کا دائرہ پھیل کر وزیر اعظم تک بھی جا سکتا ہے۔ سو اس سے پہلے آئی جی پولیس اسلام آباد کے تبادلے کو عدالت عظمیٰ نے جس طرح واپس کر دیا تھا، اس پر بھی وفاقی حکومت کی بہت سبکی ہوئی تھی۔ اس لئے وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کلی طور پر معاملہ عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خیال رہے نیب، آئی بی اور ایف آئی اے کے ارکان پر مشتمل جے آئی ٹی نے تین ہفتوں میں پانچ حصوں پر مشتمل ضخیم رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے حوالے سے حکومت کو ایک دھڑکا یہ لگا ہوا ہے کہ اس کی تفصیلات فوری طور پر پبلک کرنے کا عدالت حکم نہ دے دے۔ یا عدالت کے ریکارڈ کے طور پر یہ رپورٹ میڈیا اور عوام کے سامنے نہ آ جائے۔
ادھر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اعجاز چوہدری نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری جماعت ایک اصولی اپروچ رکھتی ہے کہ اعظم خان سواتی کے بارے میں عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ کرے گی، پی ٹی آئی اور اس کی حکومت قبول کرے گی‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں اعجاز احمد چوہدری نے کہا ’’جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی عدالت میں پیش ہونے والی رپورٹ اپنی جگہ، مگر پی ٹی آئی صرف اسی رپورٹ کو نہیں دیکھ رہی۔ پارٹی اس معاملے کو اپنے طور پر بھی دیکھتی ہے یا دیکھ سکتی ہے‘‘۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں اعظم سواتی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ اب مکمل طور پر عدالت عظمیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو نہ صرف اعظم خان سواتی کے بارے میں فیصلہ کر کے انہیں گھر بھیج سکتی ہے، بلکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ چاہے تو عدالت انہیں معاف بھی کر سکتی ہے۔ لیکن یہ سب عدالت نے خود طے کرنا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی کہ اپنے ایک رہنما کو خود سزا دے۔ البتہ اس کے بارے میں عدالتی فیصلے کا ہی انتظار کیا جائے گا۔ حکومت کی خواہش ہو گی کہ عدالتی فیصلہ اگر مخالفانہ ہوتا ہے تو لمبے عرصے کے لئے لٹکا رہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment