برطانیہ اور یورپی یونین کی ’’طلاق‘‘ سے پاکستان بھی متاثر ہوگا

امت رپورٹ
برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین ’’طلاق‘‘ سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ واضح رہے کہ 2016ء کو ہونے والے ریفرنڈم پر عمل درآمد کی صورت میں برطانیہ 29 مارچ کی دوپہر یورپی اتحاد سے نکل جائے گا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں 52 فیصد اور اس کی مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے۔
یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس وقت یورپی منڈی کے لئے 25 فیصد پاکستانی برآمدات کا بڑا حصہ برطانیہ جاتا ہے۔ ایکسپورٹ سے جڑے اور ماضی میں پاکستان بزنس کونسل سے وابستہ رہنے والے ایک تاجر کے بقول پاکستان کی کُل ایکسپورٹ میں سے 25 فیصد برآمدات اگرچہ یورپی ممالک میں بھیجی جا رہی ہیں، لیکن ان برآمدات کا نصف سے زائد حصہ برطانیہ کو ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بریگزٹ کے نتیجے میں پاکستانی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوں گی۔ یورپ ایکسپورٹ کی جانے والی ان اشیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات، گارمنٹس، خام چمڑا اور اس سے بنی اشیا، کھیلوں کا سامان، کٹلری (چھری کانٹے) اور سرجیکل آلات قابل ذکر ہیں۔
2013ء میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے چھ ماہ بعد پاکستان کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دے دیا تھا۔ جی ایس پی، General System of Prefe rences کا مخفف ہے۔ یعنی کوئی بھی ترقی پذیر ملک کو یہ اسٹیٹس مل جانے کے بعد اپنی اشیا بغیر ڈیوٹی یورپی منڈی تک پہنچا سکتا ہے اور اسے دیگر رعاعتیں مل جاتی ہیں۔ یوں پاکستان تقریباً پچھلے 5 برس سے ان رعایتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مصنوعات یورپی منڈی تک پہنچا رہا ہے۔ جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ملنے کے بعد سے یورپی یونین کے لئے پاکستانی ایکسپورٹ میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد پاکستان کو برطانیہ کے ساتھ علیحدہ سے جی ایس پی پلس طرز کا تجارتی معاہدہ درکار ہوگا۔ پاکستان کو اس کی اس لئے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ اس کی ایکسپورٹ کا زیادہ حصہ دیگر یورپی ممالک کے بجائے برطانیہ کوجاتا ہے۔
بریگزٹ پر عمل درآمد سے پہلے ہی بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک نے برطانیہ کے ساتھ مختلف تجارتی معاہدوں کے حوالے سے بات چیت شروع کر رکھی ہے۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے تناظر میں بھارت، برطانیہ سے ایک بہترین تجارتی ڈیل چاہتا ہے اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے ساتھ ’’فری ٹریڈ ڈیل‘‘ بھارت کا اصل ہدف ہے۔ چند ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم مودی کی لندن یاترا کے دوران اپنی برطانوی ہم منصب تھریسا مے کے ساتھ ملاقات میں بھی یہ ایشو ڈسکس ہوا تھا۔ بھارت کی خواہش ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد نہ صرف برطانیہ اس کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کرے، بلکہ بھارتی تاجروں اور طلبا کے لئے ویزوں کے اجرا میں بھی آسانیاں پیدا کی جائیں۔ لندن میں موجود ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف بھارت نے مستقبل کی تجارت کے حوالے سے برطانیہ سے بات چیت کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ وہیں پاکستان کی طرف سے خاموشی ہے۔ البتہ عام انتخابات سے قبل رواں برس کے اوائل میں اس وقت کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے کچھ بھاگ دوڑ ضرور کی تھی اور اس سلسلے میں برطانوی انٹرنیشنل ٹریڈ سیکریٹری لائم فوکس سے کئی ملاقاتیں بھی کیں۔ تاہم اس کے بعد سے کوئی نئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ جبکہ لائم فوکس نے اعلانیہ کہا ہے کہ بریگزٹ کے بعد نئے تجارتی معاہدوں کے حوالے سے دولت مشترکہ کے ممالک بالخصوص بھارت کے لئے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
برطانوی ہائوس آف لارڈ کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد کو بھی اس پر حیرت ہے کہ جب بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ دیگر ممالک ابھی سے برطانیہ کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کرنے کے لئے متحرک ہیں تو ایسے میں پاکستان کیوں ٹھنڈا بیٹھا ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستان کو یورپی منڈی تک جو رسائی ملی ہوئی ہے، بریگزٹ کے بعد پاکستان اس رعایت کو یورپ کے دیگر 27 ممالک کے لئے تو استعمال کر پائے گا۔ تاہم برطانیہ سے اسے براہ راست ون ٹو ون نیا ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس نوعیت کی بزنس ڈیل کے لئے بھارت کے علاوہ چین اور برازیل بھی برطانیہ سے بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس قسم کی بات چیت فوری شروع کرنی چاہئے۔ نریندر مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر تو نئے باہمی تجارتی معاہدے کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے بھارتی وزٹ کے دوران بھی اس ایشو پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ جبکہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ اسے اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں کہ بریگزٹ ہونے جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی باقاعدہ وزیر تجارت بھی نہیں۔ یہ ذمہ داری مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کو ملی ہوئی ہے۔
قریباً دو ماہ پہلے برطانوی وزیر اعظم کے تجارتی نمائندے برائے پاکستان رحمن چشتی نے پاکستان کے دورے کے دوران یہ یقین دلایا تھا کہ بریگزٹ کے بعد بھی ان کا ملک اسلام آباد کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس برقرار رکھے گا۔ اپنے دورے کے دوران رحمن چشتی نے مختلف وفاقی وزرا، تاجروں اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ تاہم لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی بیان تھا۔ ٹیکنیکل طور پر بریگزٹ کے بعد پاکستان کو اس نوعیت کا ایک نیا تجارتی معاہدہ برطانیہ سے کرنا پڑے گا۔ اسی لئے بھارت سمیت دیگر ممالک برطانیہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ لارڈ نذیر کے بقول جہاں تک رحمن چشتی کا تعلق ہے تو وہ بریگزٹ کے معاملے پر استعفیٰ دے چکے ہیں۔
بریگزٹ کے بعد پاکستانی ایکسپورٹ کو ہی نقصان پہنچنے کا خدشہ نہیں، بلکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی۔ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے ملک کو بھیجے جانے والی ترسیلات میں پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کا نمبر تیسرا ہے، جو ہر سال دو ارب پائونڈ پاکستان کو بھیجتے ہیں۔ تاہم بریگزٹ کے بعد ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پائونڈ کی قدر کم ہونے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا یہ ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی۔ بریگزٹ کے نتیجے میں پاکستان کے متاثر ہونے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ یورپی یونین میں برطانیہ کی موجودگی پاکستان کے لئے ایک بڑی سپورٹ تھی۔ پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دلانے میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کوششوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ جنہوں نے اس معاملے پر پاکستان کو کھل کر سپورٹ کیا۔
لارڈ نذیر احمد کا ماننا ہے کہ اگلے برس 29 مارچ کو برطانیہ اور یورپی اتحاد کے درمیان ’’طلاق‘‘ ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔ تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بریگزٹ کے لئے وزیر اعظم تھریسا مے کا مجوزہ معاہدہ سامنے آنے کے بعد برطانوی سیاست میں ہلچل ہے۔ اس کے نتیجے میں بریگزٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ کیونکہ خود وزیر اعظم کی اپنی کابینہ کے کئی ارکان نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں معاہدے کا نقصان برطانیہ کو اور فائدہ یورپی اتحاد کو ہو گا۔ ارکان کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے سے برطانیہ ٹوٹ جائے گا۔ تاہم بریگزٹ کے معاہدے پر کابینہ کے بعض ارکان کے تحفظات کے باوجود ارکان کی اکثریت نے دستخط کر دیئے ہیں۔ اب اگلا مرحلہ اس معاہدے پر یورپی یونین اور پھر برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کے دستخطوں کا ہے۔ یہ مرحلہ دسمبر میں آئے گا۔ برطانوی کابینہ کی جانب سے معاہدے کے مسودے کی منظوری کے بعد کابینہ کے دو ارکان بریگزٹ کے وزیر ڈومینک راب اور ورکس اینڈ پنشن کی وزیر ایستھر میکووے کے علاوہ پاکستان کے لئے وزیر اعظم کے تجارتی مشیر رحمن چشتی استعفیٰ دے چکے ہیں۔ مستعفی وزرا کے بقول اس معاہدے کے تحت برطانیہ، یورپی یونین کے زیر کنٹرول ہی رہے گا۔ اور صحیح معنوں میں علیحدگی نہیں ہو پائے گی۔ یوں جس مقصد کے لئے برطانوی شہریوں کی اکثریت نے ووٹ دیئے تھے، وہ فوت ہو جائے گا۔ لہٰذا مجوزہ معاہدہ ریفرنڈم کے نتائج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں معاہدے پر دستخط کرانے کے لئے وزیر اعظم تھریسا مے کو ایوان زیریں اور اپنے ہی ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت حاصل نہیں، جبکہ لیبر سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی اس کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ اس معاہدے کی منظوری نہیں دیتی تو پھر اس کے نتیجے میں تھریسا مے کی حکومت جا سکتی ہے۔ عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ برطانیہ دوبارہ ریفرنڈم کی طرف چلا جائے۔
یورپی اتحاد سے برطانوی علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے والوں کو معاہدے کے چار سے پانچ نکات پر بنیادی اختلاف ہے۔ جس کی موجودگی میں وہ سمجھتے ہیں کہ علیحدگی کا مقصد حاصل نہیں ہو پائے گا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے بقول جس طرح شادی کے بعد طلاق کی صورت میں کچھ لینا دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح معاہدے کے تحت علیحدگی پر برطانیہ کو 39 ارب پائونڈ یورپی یونین کو دینا ہوں گے۔ معاہدے میں یہ بھی رکھا گیا ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور ری پبلکن آئرلینڈ کی سرحدوں کو نرم رکھا جائے گا۔ برطانیہ میں مقیم یورپی شہریوں اور یورپ میں رہنے والے برطانوی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ معاہدے میں مارچ 2019ء میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد 19 ماہ کا ٹرانزیشن پیریڈ یعنی منتقلی کا دورانیہ بھی رکھا گیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپی یونین کو ایک مشترکہ کسٹمز علاقہ مانا جائے گا تاکہ سرحد پر چیک پوسٹوں کی ضرورت نہ پڑے۔ تھریسا مے کی حکمراں ٹوری پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اس لئے بھی ناراض ہیں کہ ان کے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کو آئندہ کئی برسوں تک یورپی یونین کے قوانین ماننے پڑیں گے۔
لارڈ نذیر احمد نے بھی بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اگرچہ وہ بھی بریگزٹ کے معاہدے کے خلاف ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یورپی اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کے نتیجے میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت دیگر مسلمان ممالک کے شہریوں کو ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ یورپ کے مختلف ممالک میں نیشنل فرنٹ اور فریڈم پارٹی آسٹریا جیسی مسلمان مخالف، فاشسٹ پارٹیوں اور گیرٹ ویلڈرز جیسے عناصر کی سرگرمیوں سے نجات ملے گی۔ یہ پارٹیاں اور عناصر برطانیہ میں بتدریج اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ تاہم یورپی اتحاد سے علیحدگی کے بعد ان پارٹیوں اور عناصر کی برطانیہ میں رسائی مشکل اور محدود ہو جائے گی۔ لارڈ نذیر کے بقول اسی طرح امیگریشن کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ ہر برس لاکھوں کی تعداد میں بالخصوص رومانیہ اور بلغاریہ سے جو افراد برطانیہ آ رہے ہیں، یہ سیلاب رک جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے برطانوی شہریوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ لارڈ نذیر احمد کے مطابق بعض لوگوں کو خوف ہے کہ بریگزٹ کی وجہ سے برطانوی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ حالانکہ 2016ء میں بریگزٹ کے حق میں ریفرنڈم ہونے کے بعد سے ایسی کوئی صورت حال نہیں۔ بلکہ برطانیہ میں ہر برس تین لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ یورپ کو چلانے کے لئے برطانیہ کو سالانہ 70 سے 80 ارب پائونڈ دینے پڑتے ہیں۔ بریگزٹ سے ان بھاری اخراجات کی بچت بھی ہو گی۔ لارڈ نذیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یورپ اتنا اچھا ہے تو پھر مانچسٹر، برمنگھم اور بریڈ فورڈ کے لوگ برطانیہ چھوڑ کر اٹلی، اسپین اور بلجیم میں جا کر کام کیوں نہیں کرتے؟ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم تقریباً تمام پاکستانی برطانیہ آنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment