نمائندہ امت
گوجرانوالہ سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن کے وکلا نے گزشتہ ایک ہفتے سے عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ بعض شہروں میں عدالتوں اور عدالت کے احاطے میں موجود ضلعی انتظامیہ کے دفاتر پر بھی تالے ڈال کر ان کے افسران کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ فیصل آباد اور دیگر شہروں میں سرکاری دفاتر میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ جس سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ لیکن حکومت جو کسی وجہ سے مصلحت کا شکار ہے، نے وکلا کے خلاف اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔ انتظامیہ بھی احتجاجی وکلا کے سامنے بے بس ہے۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ یا صوبائی انتظامیہ نے بھی عوام کو درپیش سنگین مسائل اور مشکلات کا ابھی تک سرے سے نوٹس ہی نہیں لیا۔ دوسری جانب وکلا رہنماؤں کا موقف ہے کہ وہ اپنے شہروں کے منتخب اراکین اسمبلی سے بھی رابطے کر رہے ہیں اور اگلے مرحلے میں شہر کی مارکٹیں، بازار اور اہم شاہراہیں بند کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب کے تین بڑے شہروں گوجرانوالہ، سرگودھا اور فیصل آبادکے وکلا اپنے اپنے شہر میں لاہور ہائی کورٹ کا الگ بینچ قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ وہ ہزاروں شہری اور وکلا جو روزانہ لاکھوں روپے خرچ کر کے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے مقدمات کے سلسلے میں پیش ہوتے ہیں، ان کا سرمایہ اور قیمتی وقت بچ سکے۔ اسی طرح ان شہریوں سے انتظامیہ خصوصاً پولیس اہلکار جو روزانہ سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے مقدمات کے سلسلے میں لاہور جاتے ہیں، ان کے وقت کی بھی بچت ہو اور ایک ایک مقدمے میں کئی کئی دن ضائع کرنے والے سرکاری ملازمین اپنے شہروں اور اپنے دفاتر میں موجود رہ کر عوام کی خدمت کر سکیں۔
فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار کو ملک بھر کی تیسری بڑی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ فیصل آباد کی آبادی لگ بھگ پونے دو کروڑ ہے اور ضلعی صدر ڈسٹرکٹ بار امجد حسین ملک ایڈووکیٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا پچاس فیصد مقدمات فیصل آباد ڈویژن کے ہیں، جن کی سماعت کے موقع پر روزانہ ہزاروں افراد لاکھوں روپے خرچ کر کے لاہور کا سفر کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کے کمرہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی نئی تاریخ سماعت کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر حکومت اور لاہور ہائی کورٹ نے وکلا کے اس مطالبے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور موجودہ روش برقرار رکھی تو اگلے ہفتے سے ان بڑے شہروں کے بازار، مارکیٹیں اور اہم شاہراہیں بند کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امجد حسین ملک ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’کل (ہفتے کے روز) فیصل آباد کے تمام ممبران اسمبلی جن کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، چیمبر اور تاجر تنظیموں کے نمائندوں کو بھی اپنے اجلاس شرکت کی دعوت دی ہے اور ہمیں اب تک ان تمام نمائندہ افراد کی حمایت حاصل ہے۔ اس اجلاس میں اگلے ہفتے سے تمام بازار، مارکیٹیں اور اہم سڑکیں بند کرنے پر مشاورت ہوگی اور ہمیں یقین ہے کہ تاجر برادری اور عوام کے منتخت نمائندے ہمارا ساتھ دیں گے۔ فیصل آباد کے پونے دو کروڑ عوام کے مفاد میں ہے کہ یہاں ہائی کورٹ کا بینچ بنے اور روزانہ ہزاروں لوگ جو مقدمات کے سلسلے میں لاہور کا رخ کرتے ہیں، انہیں انصاف اپنے گھر کی دہلیز یعنی اپنے شہر میں میسر آئیں اور وہ سرکاری افسران اور ملازمین جو لاہور ہائی کورٹ میں مقدمات کی پیروی کے لئے جانے کا بہانہ اور جواز تلاش کر کے اپنے دفاتر میں نہیں بیٹھتے، وہ اپنے دفاتر میں رہ کر عوام کی خدمت کریں‘‘۔ ایک سوال پر امجد حیسن ملک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہمارا تیس سال پرانا مطالبہ ہے۔ لیکن اب اسے منظور کرائے بغیر ہڑتال ختم نہیں کریں گے‘‘۔
فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی رانا غلام عباس نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے دور میں صوبائی وزارت قانون نے فیصل آباد میں ہائی کورٹ بینچ قائم کرنے کی سمری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھیجی تھی۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے ہائی کورٹ کا فل بینچ بنا کر اس ایڈوائس پر کام روک دیا تھا۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جب گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار کے صدر نور محمد مرزا ایڈووکیٹ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ پنجاب کا بہت زیادہ آبادی والا ڈویژن ہے اور وکلا کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اپنے مقدمات کے سلسلے میں لاہور آنے جانے کے اخراجات سے بچانے کے لئے اگل سے بینچ بنایا جائے، لیکن اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ لیکن اب وکلا ڈو آر ڈائی کی پوزیشن پر آچکے ہیں اور اس وقت تک ہڑتال ختم نہیں کی جائے گی اور عدالتوں کی تالہ بندی ختم نہیں کریں گے جب تک وکلا کا اصولی مطالبہ تسلیم نہیں کرلیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب تک ہم نے صرف عدالتوں کو تالے لگائے ہیں اور بعض ضلعی افسران کے دفاتر جن میں احاطہ عدالت میں موجود ڈپٹی کمشنر اور اے ڈی سی وغیرہ کے دفاتر شامل ہیں کو بند کر دیا ہے۔ اگلے مرحلے میں ہم کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن کے دفتر کو بند کرنے پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ کیونکہ عدالتیں بند کرانا اور حکومت کی توجہ حاصل کرنا ہماری مجبوری اور ضرورت ہے۔ جبکہ عدالتیں بند ہونے سے عوام کو مشکلات درپیش ہیں۔ لیکن حکومت بدقسمتی سے اس مسئلے کا سرے سے نوٹس ہی نہیں لے رہی۔ ہم مجبور ہو رہے ہیں کہ ایسا راست اقدام اٹھائیں کہ حکومت ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہمارے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے‘‘۔
٭٭٭٭٭