حضرت سعد بن معاذؓ غزوئہ خندق میں ایک تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے، جن کے علاج کے لئے حضور اقدسؐ نے حضرت رفیدہؓ کے خیمہ میں بھجوا دیا تھا، جو مسجد نبویؐ سے قریب ہی تھا۔ حضرت رفیدہ اسلمیؓ بنو نجار کی ایک صالح خاتون تھیں، جو بیماروں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ اس غرض کے لئے ایک خیمہ لگایا گیا تھا، جسے شفا خانے کی حیثیت حاصل تھی۔ حضور اکرمؐ روزانہ ان کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔
جب بنو قریظہ کے یہودیوں نے غزوئہ خندق میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کی تو انہیں محاصرہ میں لیا گیا اور وہ اس شرط پر قلعوں سے نیچے سے اترے کہ ان کے بارے میں فیصلہ حضرت سعدؓ کریں گے۔ حضرت سعدؓ کا قبیلہ، بنوقریظہ کا حلیف تھا۔ چنانچہ انہیں ایک سواری میں لایا گیا، جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا اور کہنے لگے: ’’سعد! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا۔ رسول اکرمؐ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔‘‘
مگر وہ چپ چاپ تھے۔ کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے: ’’اب وقت آ گیا ہے کہ سعد کو خدا کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔‘‘
اس کے بعد جب حضرت سعدؓ نبی اکرمؐ کے پاس پہنچے تو آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔‘‘
لوگوں نے بڑھ کر جب انہیں اتار لیا تو کہا: ’’اے سعد! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے اترے ہیں۔‘‘
حضرت سعدؓ نے کہا: ’’کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا؟‘‘
لوگوں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’مسلمانوں پر بھی؟‘‘
لوگوں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘
انہوں نے پھر کہا: ’’اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟‘‘ ان کا اشارہ رسول اکرمؐ کی فرود گاہ کی طرف تھا، مگر اجلال و تعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جی ہاں، مجھ پر بھی۔‘‘
حضرت سعدؓ نے کہا: ’’تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور اموال تقسیم کردیئے جائیں۔‘‘
حضرت سعدؓ نے جو فیصلہ کیا وہ تورات کے مطابق تھا۔ تورات، کتاب تثنیہ اصحاح 2 آیت 10 میں ہے: ’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے، بلکہ لڑنا چاہے تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا اور عورتوں کو اور بال بچوں اور چوپایوں، شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا۔‘‘
بنو قریظہ کے متعلق مخالفین اسلام نے بہت شدت کے ساتھ ظلم و بے رحمی کا اعتراض کیا ہے۔ اس سخت فیصلے کی وجہ کیا تھی، اس کو جاننے کے لیے حسب ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭