غزوئہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے جب حضرت کعبؓ بن مالک سے ترک موالات (سوشل بائیکاٹ) کا حکم رسول اکرمؐ کی طرف سے جاری ہوا تو وہ بہت پریشان ہوگئے۔ گھر سے نکل کر مسجد نبوی تک جاتے۔ راستہ میں کوئی ان سے بات نہیں کرتا۔ نہ سلام کرتا، نہ ان کے سلام کا جواب دیتا تھا۔ یہ نماز کے بعد ایک کونے میں بیٹھ جاتے تھے۔ رسول اقدسؐ کی نگاہ التفات سے محروم ہونے کا انہیں بڑا قلق تھا۔
یہ بات کسی طرح غسان کے عیسائی بادشاہ کو معلوم ہوگئی۔ اس نے حضرت کعبؓ بن مالک کے پاس اپنا قاصد بھیجا۔ وہ بادشاہ کا خط لے کر ان سے ملا۔ خط میں لکھا تھا:
’’کعبؓ! تم ایک شریف اور قابل احترام شخص ہو، ہم تمہاری قدر ومنزلت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب (محمدؐ) نے تم پر بڑی زیادتی کر رکھی ہے۔ تم ہمارے قاصد کے ساتھ ہمارے پاس آجائو۔ تم ہم کو انتہائی قدر دان پائو گے۔‘‘
حضرت کعبؓ بھلا ایسی باتوں سے جادئہ استقلال سے کب ڈگمگانے والے تھے؟ وہ شیدائی رسولؐ ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے محبوبؐ سے علیحدہ ہونا گوارا نہیں کرسکتا تھا۔
اس خط نے ان کے زخم پر نمک چھڑک دیا۔ وہ خشیت الٰہی سے رو دیئے کہ انہیں یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ایک کافر انہیں راہ حق سے ہٹانا چاہے اور ان کے محبوبؐ سے جدائی کی دعوت دے۔ روتے روتے بیتاب ہوگئے۔
قاصد نے جب پوچھا کہ ’’جواب کیا ہے؟‘‘ تو خط کو جلتے تنور میں ڈال کر بولے: ’’جائو بادشاہ سے کہنا، یہی میرا جواب ہے۔‘‘ (تاریخ الاسلام و المسلمین)
٭٭٭٭٭