شیخ جیلانی اور احمد بدوی

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جب حصول علم کیلئے اپنے گاؤں جیلان (گیلان) سے بغداد کیلئے روانہ ہوئے تو آپ کی والدہ ماجدہ نے زادراہ کے طور پر چالیس دینار آپ کی گدڑی میں سی دیئے اور چلتے وقت اپنے لخت جگر کو نصیحت کی کہ بیٹا خواہ کیسی ہی مصیبت اور برے حالات تمہیں پیش آئیں سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور جھوٹ کے نزدیک بھی نہ پھٹکنا، کیونکہ راست گوئی ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے۔ سعادت مند فرزند نے عرض کی کہ اے مادر مشفقہ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ آپ کی نصیحت پر ہمیشہ عمل کروں گا۔ والدہ ماجدہ سے رخصت ہوکر حضرتؒ بغداد جانے والے ایک قافلے میں شامل ہوگئے، کیوں کہ اس دور میں طویل بیابانی راستوں میں تنہا سفر کرنا ممکن نہ تھا۔ اثنائے سفر میں ہمدان سے کچھ آگے قزاقوں کے ایک جتھے نے قافلے پر چھاپا مارا اور اہل قافلہ کا سب مال و اسباب لوٹ کر تقسیم کے لئے ایک جگہ جمع کردیا۔ سیدنا حضرت شیخ عبدالقادرؒ ایک طرف چپ چاپ یہ درد ناک نظارہ دیکھ رہے تھے کہ ایک ڈاکو آپ کی طرف بڑھا اور پوچھا کیوں میاں لڑکے تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ ڈاکو کو آپ کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ آپ کی ہنسی اڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا، اتنے میں ایک دوسرا قزاق آپ کی طرف آیا اور آپ سے وہی سوال کیا آپ نے اسے بھی یہی جواب دیا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ آپ کی غریبانہ حالت کو دیکھتے ہوئے دوسرے ڈاکو نے بھی آپ کی بات ہنسی میں اڑا دی۔ ہوتے ہوتے یہ بات ڈاکوؤں میں پھیل گئی اور ان کے سردار احمد بدوی کے کانوں میں بھی جا پڑی۔ اس نے حکم دیا کہ اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔ ڈاکو حضرت کو کشاں کشاں اپنے سردار کے سامنے لے گئے۔ سردار نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا: لڑکے سچ سچ بتا، تیرے پاس کیا ہے؟
حضرت نے بلاخوف و ہراس جواب دیا میں پہلے بھی تیرے دو ساتھیوں کو بتا چکا ہوں کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔
سردار نے پوچھا کہاں ہیں؟ حضرت نے فرمایا میری بغل کے نیچے گدڑی میں سلے ہوئے ہیں۔ سردار نے ایک ڈاکو کو حکم دیا کہ اس لڑکے کی تلاشی لو۔ چنانچہ اس نے آپ کی گدڑی ادھیڑ کر دیکھی تو اس میں سے واقعی چالیس دینار نکل آئے۔ احمد بدوی اور اس کے قزاق یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ احمد بدوی نے استعجاب کے عالم میں حضرت سے پوچھا لڑکے تمہیں معلوم ہے کہ ہم قزاق ہیں اور مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں پھر بھی تم نے ان دیناروں کا بھید ہم پر ظاہر کردیا، حالانکہ یہ رقم اس قدر محفوظ تھی کہ کسی کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں گزر سکتا تھا، آخر کس چیز نے تمہیں سچ بولنے پر مجبور کیا؟
حضرت نے فرمایا: میری والدہ نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا، بھلا ان چالیس دیناروں کی وجہ سے میں اپنی والدہ کی نصیحت کیوں فراموش کردیتا اور حق تعالیٰ کو ناراض کرلیتا؟ حضرت کے الفاظ سن کے بدوی بے حد متاثر ہوا اور اس پر رقت طاری ہوگئی۔ ندامت کے آنسوؤں نے اس کے دل کی شقاوت اور سیاہی دھو ڈالی اور اس نے آہ بھر کر کہا: اے بچے تم پر خدا کی ہزار رحمت ہو کہ تم نے اپنی ماں کے عہد کا خیال رکھا، لیکن حیف ہے مجھ پر کہ میں نے اپنی ساری زندگی اپنے خالق کا عہد توڑتے گزار دی۔ اے بچے تم نے مجھے ہدایت کی راہ دکھا دی، اب میں رہتی زندگی تک کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور رہزنی کے پیشہ سے تائب ہوگیا۔ اس کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھا تو سب بیک زبان پکار اٹھے کہ اے سردار ہم بھی اس برے پیشہ سے توبہ کرتے ہیں تو رہزنی میں بھی ہمارا قائد تھا اور توبہ میں بھی ہمارا پیشرو ہے۔ چنانچہ انہوں نے لوٹا ہوا تمام مال قافلے والوں کو واپس دے دیا۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد احمد بدوی اور اس کے ساتھی سچے مسلمان بن گئے اور اپنے زہد و تقویٰ عبادت و ریاضت اور خدمت خلق و حق شناسی کی بدولت خاصان خدا میں شمار ہوئے۔ (بحوالہ حکایات صوفیہ)
حاصل… سچ کہا ہے کہ ماں کی گود بچے کیلئے پہلا مدرسہ اور پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے، چنانچہ اگر ماں بچپن میں ہی بچے کی اخلاقی تربیت کرے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ آگے چل کر شیخ عبدالقادر جیلانی بنے، لہٰذا اس واقعہ سے ہم سب کو خصوصاً ہماری ماؤں بہنوں کو خاص طور پر سبق حاصل کرنا چاہئے، حق تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین رب العلمین۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment