عبد اللہ بن اُبی (رئیس المنافقین) کو اسلام اور مسلمانوں سے عموماً اور رسول اقدسؐ سے خصوصاً بڑی ضد تھی، کیونکہ اوس وخزرج اس کی قیادت پر متفق ہوچکے تھے اور اس کی تاج پوشی کے لیے مونگوں کا تاج بنایا جا رہا تھا کہ اتنے میں مدینہ کے اندر اسلام کی شعاعیں پہنچ گئیں اور لوگوں کی توجہ ابن ابی سے ہٹ گئی۔ اس لیے اسے احساس تھا کہ رسول اکرمؐ نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
اس کی یہ ضد اور جلن ابتدائے ہجرت ہی سے واضح تھی، جبکہ ابھی اس نے اسلام کا اظہار بھی نہیں کیا تھا، پھر اسلام کا اظہار کرنے کے بعد بھی اس کی یہی روش رہی، چنانچہ اس کے اظہار اسلام سے پہلے ایک بار رسول اکرمؐ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے سواری پر تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک مجلس سے گزر ہوا، جس میں ابن اُبی بھی تھا، اس نے اپنی ناک ڈھک لی اور بولا: ’’ہم پر غبار نہ اڑائو‘‘ پھر جب رسول اکرمؐ نے اہل مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا: ’’آپ اپنے گھر میں بیٹھئے، ہماری مجلس میں ہمیں نہ گھیریئے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
یہ اظہار ِ اسلام سے پہلے کی بات ہے، لیکن جنگِ بدر کے بعد جب اس نے ہوا کا رخ دیکھ کر اسلام کا اظہار کیا تب بھی وہ خدا، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کا دشمن ہی رہا اور اسلامی معاشرے میں انتشار برپا کرنے اور اسلام کی آواز کمزور کرنے کی مسلسل تدبیریں سوچتا رہا۔ وہ اعدائے اسلام سے بڑا مخلصانہ ربط رکھتا تھا۔ چنانچہ بنو قینقاع کے معاملے میں نہایت نامعقول طریقے سے دخل انداز ہوا تھا (جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے) اسی طرح اس نے غزوئہ احد میں بھی شر، بدعہدی، مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی و انتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ اس منافق کے مکر وفریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اقدسؐ خطبہ دینے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا: ’’لوگو! یہ تمہارے درمیان خدا کے رسولؐ ہیں، خدا نے ان کے ذریعے تمہیں عزت واحترام بخشا ہے، لہٰذا ان کی مدد کرو، انہیں قوت پہنچائو اور ان کی بات سنو اور مانو۔‘‘ اس کے بعد بیٹھ جاتا اور رسول اکرمؐ اٹھ کر خطبہ دیتے، پھر اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب جنگِ احد کے بعد پہلا جمعہ آیا، کیونکہ یہ شخص اس جنگ میں اپنی بدترین دغابازی کے باوجود خطبہ سے پہلے پھر کھڑا ہو گیا اور وہی باتیں دہرانی شروع کیں، جو اس سے پہلے کہا کرتا تھا، لیکن اب کی بار مسلمانوں نے مختلف اطراف سے اس کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا: ’’او خدا کے دشمن! بیٹھ جا، تو نے جو جو حرکتیں کی ہیں، اس کے بعد اب تو اس لائق نہیں رہ گیا ہے۔‘‘ اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا کہ ’’میں ان صاحب کی تائید کے لیے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی مجرمانہ بات کہہ دی۔‘‘
اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا ’’تیری بربادی ہو، واپس چل، رسول اکرمؐ تیرے لیے دعائے مغفرت کردیں گے۔‘‘ اس نے کہا: ’’خدا کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں۔‘‘ (ابن ہشام)
علاوہ ازیں ابن ابی نے بنونضیر (یہودی) سے بھی رابطہ قائم کر رکھا تھا اور ان سے مل کر مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشیں کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ابن ابی اور اس کے رفقا نے جنگِ خندق میں مسلمانوں کے اندر اضطراب مچانے اور انہیں مرعوب ودہشت زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے تھے۔ ان سب کے باوجود یہود، منافقین اور مشرکین غرض سارے ہی اعدائے اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اسلام کے غلبے کا سبب مادّی تفوّْق اور اسلحے لشکر اور تعداد کی کثرت نہیں ہے بلکہ اس کا سبب وہ خدا پرستی اور اخلاقی قدریں ہیں، جن سے پورا اسلامی معاشرہ اور دینِ اسلام سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سرفراز وبہرہ مند ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭