سرفروش

عباس ثاقب
میں جیسے جیسے غور کر رہا تھا، اپنے اندازوں کی درستگی پر میرا یقین پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جا رہا تھا کہ سارے روگ کی جڑ یہ گھرکا بھیدی، آستین کا سانپ الکھ سنگھ ہی ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی ادراک تھا کہ اگر اس شیطان کو فوری طور پر گردن سے نہ پکڑا گیا تو یہ ان ہتھیاروں اور کسی دیگر ممکنہ ثبوتوں کو غتربود کرکے معصوم بن جائے گا اور میرے اخذ کیے ہوئے یہ سارے نتائج محض بہتان کی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ بلاشبہ وہ چتکبرا گھوڑا ایک ٹھوس ثبوت تھا۔ لیکن میرے لیے یہ ثابت کرنا بے حد دشوار ہوتا کہ یہ وہی گھوڑا ہے، جسے اس واردات میں استعمال کیا گیا تھا۔
میں نے فیصلے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ میں نے جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے نیرج کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ’’یار نیرج جلدی سے بیٹھو۔ ہم حویلی کی طرف چل رہے ہیں۔ تمہیںفوراً حویلی میں امر دیپ بھائی کے پاس جانا ہے۔ انہیں ایک طرف بلاکرکہو کہ میں انہیں فوراً بلا رہا ہوں۔ انہیں یہ بھی کہنا کہ مجھے انہیں ساتھ لے کر ابھی اور اسی وقت کہیں جانا ہے‘‘۔
نیرج شاید کوئی سوال کرنا چاہتا تھا، لیکن میں نے لگ بھگ ڈپٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’یار وقت ضائع نہ کرو۔ یہ ہنگامی معاملہ ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی نیرج فوراً میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحوں بعد میری جیپ حویلی کے مہمان خانے کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی اور نیرج تیز قدموں سے حویلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ امر دیپ شاید تین، چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں ہی نیرج کے ساتھ میرے پاس پہنچ گیا تھا۔ لیکن وقت تیزی سے ہاتھ سے پھسلنے کے اضطراب کی وجہ سے وہ مختصر وقفہ بھی بہت طویل لگا۔
امر دیپ آکر سیدھا میرے پہلو والی سیٹ پر بیٹھ گیا تو مجھے اطمینا ن ہوگیا کہ نیرج نے میرا پیغام درست انداز میں امر دیپ تک پہنچایا ہے۔ میں نے فوراً جیپ اسٹارٹ کی اور اسے ریس دے کر بڑے پھاٹک کی طرف رواں دواں کر دیا۔ امر دیپ نے کوئی اعتراض یا احتجاج کرنے کے بجائے سوال کیا۔ ’’خیریت تو ہے چھوٹے بھائی؟ کوئی مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے کیا؟ اتنی افراتفری میں کہاں چل دیئے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’مسئلہ کھڑا نہیں ہوا امر دیپ بھائی، بلکہ مسئلہ حل ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ باقی تفصیل میں راستے میں بتاؤں گا۔ پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر میرا اندازہ درست ہے تو میں آپ اور مانو کے اغوا کے مرکزی کردار کو پہچان چکا ہوں اور اگر ہم بروقت کارروائی کریں تو اسے رنگے ہاتھوں پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اس وقت بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا‘‘۔
اس دوران میں امر دیپ کسی خبط الحواس شخص کی طرح منہ کھولے میری بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ اس نے بمشکل اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو بہادر بھائی؟ کیا اچانک کوئی سپنا دیکھ لیا ہے؟ وہ دونوں لٹیرے تو جنگل میں مارے جا چکے ہیں‘‘۔
میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ وہ دونوں تو بے شک نرکھ میں جاچکے ہیں۔ لیکن ان کا سرغنہ اور اس واردات کا اصل منصوبہ ساز ابھی زندہ ہے۔ کیا آپ کو ڈاک بنگلے میں ان دونوں ڈاکوؤں کا منتظر ان کا تیسرا ساتھی یاد نہیں ہے؟‘‘۔
امر دیپ نے الجھن بھرے لہجے میں کہا۔ ’’یاد تو ہے، لیکن…‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’مجھے لگ بھگ پورا یقین ہے کہ واہگرو کی کرپا سے میں اس آستین کے سانپ کو پہچان چکا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر وہ چونکا۔ ’’آستین کا سانپ؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں بھائی… میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ آپ کسی گھر کے بھیدی کی سازش کا نشانہ بنے ہیں۔ میرا اندازہ غلط نہیں ہے‘‘۔
امر دیپ نے مضطرب لہجے میں کہا۔ ’’بھائی کھل کر بات کرو!‘‘۔
اس دوران میں ہم سردار براہم دیپ کی زرعی اراضی سے باہر جانے والے کچے رستے پر کافی آگے آچکے تھے اور جلد ہی نیم پختہ سڑک پر چڑھنے والے تھے۔ میں نے کہا۔ ’’پہلے یہ بتائیے کہ ابھی کچھ دیر پہلے الکھ سنگھ جی آپ سے مل کر رخصت ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اپنے گھر جانا ہو تو وہ کون سا مختصر ترین راستہ اختیار کریں گے‘‘۔
الکھ سنگھ کا نام سن کر امر دیپ بری طرح چونکا۔ ’’یہ تم پھپھڑ جی کا پتا کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں ابھی آپ کو سب کچھ تفصیل سے بتادوں گا۔ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں تو مہربانی ہوگی‘‘۔
میرا خیال ہے وہ میرے سوال سے رفتہ رفتہ معاملے کی تہہ تک پہنچ رہا تھا، لیکن میری زبان سے حتمی تصدیق چاہتا تھا۔ اس نے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’پھپھڑ الکھ سنگھ کھڈیال پنڈ میں رہتے ہیں۔ سنگرور تحصیل میں پڑتا ہے۔ یہاں سے لگ بھگ دس میل کے فاصلے پر ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’الکھ سنگھ عموماً کس راستے سے جاتے ہیں؟‘‘۔
اس نے بدستور بھاری لہجے میں کہا۔ ’’چھاجلی سے چھوٹی بس چلتی ہے، جو پہلے چٹھا ننھیرا قصبے جاتی ہے، وہاں سے…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’وہ گھوڑے پر جارہے ہیں۔ اس کے لحاظ سے مختصر ترین راستہ بتائیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment