ایس اے اعظمی
تعصب کی آگ میں جلنے والے بھارت کی پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی روک دی گئی۔ ایک اسٹڈی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کسی بھی ریاست کی بھارتی پولیس میں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں اور ریکروٹمنٹ بورڈ میں بیٹھے متعصب ہندو افسران مسلمان امیدواروں کو جان بوجھ کر بھرتی نہیں کرتے اور معمولی باتوں کو بنیاد بناکر انہیں مسترد کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بھارتی پولیس میں مسلمانوں اہلکاروں تعداد مسلم آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے تحت بنائی جانے والی اس اہم رپورٹ ’’اسٹیٹس آف پولیسنگ انڈیا رپورٹ 2018‘‘ میں 15 ہزار 562 مسلمانوں اور عیسائیوں سے کئے جانے والے انٹرویو میں جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا ریاستوں کی پولیس میں مسلمانوں کی تعداد اس قدر کم کیوں ہے تو ہندوئوں نے اس سوال کے جواب میں مسلمانوں کی حب الوطنی کو اس کا سبب قرار دیا، لیکن مسلمانوں اور سکھوں نے ہندوئوں کے تعصب اس کی وجہ قرار دیا کہ وہ مسلمانوں کو آگے نہیں آنے دینا چاہتے اور اس ضمن میں ریکروٹمنٹ بورڈز میں ایسے انتہا پسند ہندوئوں کو شامل کیا جاتا ہے، جو مسلمانوں کو پولیس اور حساس شعبہ جات میں دیکھنا ناپسند کرتے ہیں اور اسی لئے مسلمان امیدواروں کو ’’ری جیکٹ‘‘ کردیا جاتا ہے جبکہ سیاسی افق پر کسی بھی دور میں بر سر اقتدار آنے والی بھارتی حکومت اس سلسلہ میں اگر چہ کہ تمام تر حقائق سے روشناس ہوتی ہے لیکن شیڈیولڈ کاسٹ اور بالخصوص مسلم اقلیتی طبقہ کیلئے پولیس اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کرنے سے احتراز کرتی ہے۔ بھارتی حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ 1999ء سے 2018ء کے درمیان جمع کی جانے والی معلومات اور اعداد و شمار کی رُو سے مسلمانوں کا بھارت کی پوری آبادی میں تناسب 14.2 فیصد ہے، لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ان کا تناسب محض 3.2 فیصد ہے۔ بھارتی جریدے نیشنل ہیرالڈ نے ایک سنسنی خیز رپورٹ میں بھارتی مسلمانوں کی پولیس میں ریکروٹمنٹ اور تناسب پر سیر حاصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر پولیس فورس میں شامل نہیں کیا جاتاجس کی بنیادی وجہ ان کی مسلم کمیونٹی کے بارے میں غلط تاثر قائم کیا جانا ہے جس میں ایک بنیادی خیال یہ بھی ہے کہ مسلمان ’’بھارت دیش‘‘ کے اس طرح وفادار نہیں ہوسکتے جس طرح ہندو شہری ہوتے ہیں اور امن کے قیام سمیت دہشت گردی کیخلاف ہندو سپاہی جس طرح کام کرتے ہیں اس طرح مسلمان پولیس اہلکار اور افسران کام نہیں کرسکتے۔ بھارتی سینسز ڈیپارٹمنٹ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کے تناسب کے مقابلے میں پولیس فورس میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، کسی کسی ریاست میں یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ نیشنل ہیرالڈ کی اس سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والی شمالی ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 19 فیصد سے کچھ اوپر ہے لیکن اسی ریاست کی پولیس میں مسلمانوں کی ملازمتوں کا تناسب محض 5 فیصد ہے، جس کے بارے میں متعلقہ حکام کوئی توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک انتہائی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر کے حساس مقامات پر پولیس کے شعبہ میں مسلمان مرد و خواتین کا کل تناسب صرف 4 فیصد ہے۔ دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں کا پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کل تناسب 2 فیصد ہے اور یہاں 98 فیصد اکثریت ہندو ہیں اور سکھوں کی ہے۔ مہاراشٹر جہاں بھارت کا معاشی حب ممبئی واقع ہے، میں مسلمان پولیس اہلکاروں کی تعداد محض 1 فیصد ہے۔ ریاست بہار میں مسلمانوں کا پولیس میں تناسب 4 اعشاریہ پانچ فیصد ہے اور راجستھان میں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں مسلمانوں کا تناسب 1 اعشاریہ دو فیصد ہے۔ بھارتی سماجیاتی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر ملکی اسٹیبلشمنٹ کو شک و شبہ ہے اور ان کے بارے میں ہندو فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو سیکورٹی کلیئرنس ملنا مشکل ہوتا ہے اور ان کا مذہبی و خاندانی پس منظر ان کی پولیس فورس میں شرکت کے آڑے آتا ہے اور متعلقہ ریکروٹمنٹ بورڈ میں براجمان افسران جو اکثریتی ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، مسلمانوں کو اس حساس شعبہ میں ملازمت کے لائق نہیں سمجھتے۔ مسلمان زعما اور سیاسی رہنمائوں کا دو ٹوک موقف یہی ہے کہ مسلمانوں کو بھارتی افواج اور انٹیلی جنس سمیت پولیس اور سیکورٹی کے کسی بھی شعبہ میں ملازمت کے لائق نہیں سمجھا جاتا اور ان کو پڑوسی ملک پاکستان کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر طعنے بھی دیئے جاتے ہیں حالانکہ بھارت کے مسلمان حب الوطنی میں کسی ہندو سے کم نہیں ہیں لیکن ان کی نسبت حساس شعبہ جات اور بالخصوص پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سکھوں اور عیسائیوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ایک انٹرویو میں ممبئی پولیس کے ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر شمشیر خان پٹھان نے تسلیم کیا ہے کہ ہندو افسران مسلمان اہلکاروں پر حب الوطنی کے حوالہ سے شک کرتے ہیں اور ان کا ماتحت پولیس اہلکاروں کے ساتھ رویہ انتہائی ظالمانہ اور متعصبانہ ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن پر پولیس میں شامل مسلمان اہلکار نا صرف ملازمتوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں جبکہ ان کی کہانی سن کر پولیس کا حصہ بننے کے خواہشمند مسلمان نوجوان ڈیپارٹمنٹ کے امتحان کیلئے بھی اپلائی نہیں کرتے۔ شمشیر خان پٹھان کی بات سے اتفاق کرنے والے ایک حق گو ہندو افسر اور انڈین پولیس سروس کے اعلیٰ عہدیدار بسنت رتھ نے تسلیم کیا ہے کہ کسی بھی حساس شعبہ اور بالخصوص انٹیلی جنس اور اینٹی ٹیرر اسکواڈ سمیت ہر سیکورٹی شعبہ میں اکثریتی ہندو عہدیدار مسلمانوں کی حب الوطنی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا تقرر کرنا درست نہیں سمجھتے۔
٭٭٭٭٭