لوگر حملے کے خلاف افغان عوام کا احتجاج جاری

محمد قاسم
امریکی فوج نے افغانستان کے صوبہ لوگر میں طالبان کے اسیر رہنما مولوی ملنگ کے گھر میں طالبان کمانڈر مولوی نصراللہ کی موجودگی کی اطلاع پر اندھادھند بمباری کی، جس کے نتیجے میں مولوی ملنگ کے گھر کے تمام افراد شہید ہوگئے۔ غلط اطلاع پر کی گئی وحشیانہ بمباری سے معصوم افراد کی ہلاکت پر افغان عوام کا احتجاج جاری ہے۔ جبکہ افغان طالبان نے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کابل دھماکے کے حوالے سے بھی طالبان نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اپنی ناکامی چھپانے کیلئے اب جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس کا سہارا لے رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق لوگر کے ضلع محمد آغہ کے علاقے آب بازک میں غلط اطلاع پر بمباری کرکے طالبان رہنما مولوی ملنگ کے گھر کو ملیا میٹ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 9 افراد شہید ہو گئے۔ جبکہ قریب واقع ایک اور گھر کا سربراہ بھی جاں بحق ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق وحشیانہ بمباری پر عوام نے احتجاجاً جمعرات سے گردیز کابل شاہراہ کو زاہدام کے مقام پر بلا ک کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند ہوگئی ہے۔ مقامی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ افغان اور امریکی چھاپہ مار دستوں نے مولوی ملنگ کے گھر پر طالبان کمانڈر مولوی نصر الدین کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا تھا اور انہیں فضائی مدد بھی حاصل تھی۔ ذرائع کے بقول یہ اطلاع غلط تھی کیونکہ اس وقت مولوی نصرالدین غزنی میں موجود تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد پل چرخی جیل میں قید مولوی ملنگ کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہے، جو طالبان نے افغان حکومت اور امریکی حکام کو دی ہے کہ ان رہنمائوں کو رہا کیا جائے۔ مولوی ملنگ کے گھر بمباری پر جمعہ کے روز لوگر کی مساجد میں امریکہ کیخلاف قراردادیں پیش کی گئیں۔ جبکہ جاں بحق ہونے والے افراد کے جنازے میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق مولوی ملنگ افغان طالبان کے لوگر میں اہم کمانڈر تصور کئے جاتے ہیں جبکہ مولوی نصرالدین بھی حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر ہیں۔ ذرائع کے مطابق بدخشاں اور لوگر میں امریکی بمباری سے گزشتہ دو روز میں 60 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امریکیوں سے مولوی ملنگ کے خاندان کا بدلہ لیں گے، کیونکہ بے گناہ لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکی اور افغان فوج کے درمیان بداعتمادی میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اسکاٹ ملر کے دورہ غزنی کے موقع پر نہ صرف گورنر غزنی کے سیکورٹی گارڈز سے اسلحہ لے لیا گیا بلکہ امریکی کمانڈوز نے گورنر وحید اللہ کلیمی کا ذاتی پستول بھی اس وقت تک اپنے قبضے میں رکھا، جب تک اسکاٹ ملر واپس روانہ نہیں ہوگئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس واقعہ پر امریکیوں سے شکوہ کیا ہے جبکہ افغان قبائلی عمائدین نے اسے غزنی کے عوام کی توہین قرار دیا ہے۔ دوسری جانب افغان صدر کی جانب سے کئے گئے ٹویٹس میں کابل میں عید میلاد النبیؐ کی تقریب میں دھماکے کا ذمہ دار طالبان کو قرار دینے پر جمعہ کے روز طالبان نے ان تمام ٹویٹر اکائونٹس کو جعلی قرار دیا ہے۔ طالبان کے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس نے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے کابل حملے کی ذمہ داری طالبان پر ڈالنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ واضح رہے کہ منگل 20 نومبر کو کابل کے ایک ہوٹل میں عیدمیلاد النبیؐ کی مناسبت سے ہونے والی تقریب پر حملے میں 200 سے زائد شہری شہید و زخمی ہوئے جن میں اکثریت علما اور طلبہ کی تھی۔ طالبان نے اس واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل انتظامیہ کے انٹیلی جنس عناصر نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تصویر کھینچ کر اسے فوٹو شاپ سے تبدیل کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ ہم اس جعل سازی کی تردید کرتے ہیں۔ افغان عوام طالبان مجاہدین کو قریب سے جانتے ہیں۔ اس طرح کی جعلی کوششیں افغان عوام کو طالبان سے بدظن نہیں کرسکتیں۔ لیکن میڈیا کو اپنی حساس ذمہ داری کے پیش نظر دشمن کے ساتھ جعل سازی میں مدد نہیں کرنی چاہیے اور افواہیں پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یا کم ازکم طالبان کے ترجمانوں سے ایسے مسائل کے بارے میں وضاحت طلب کی جانی چاہئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے 2017ء کے عید الاضحی سے عوامی اجتماعات کے مقامات پر طالبان حملوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment