گوردوارہ کرتارپور کے اطراف معاشی سرگرمیاں بڑھنے کا امکان

نجم الحسن عارف
کرتارپور بارڈر کھولنے کے پاک بھارت فیصلے کے بعد گوردوارہ کرتار پور کے اطراف معاشی سرگرمیاں بڑھنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ جبکہ گوردوارے کے اندر اور باہر بنیادی انفراسٹرکچر سے متعلق سہولیات کی فراہمی کیلئے سروے شروع کر دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے پاک بھارت سرحد کے اس پار بہنے والے دریائے راوی پر پل تعمیر کیا جائے گا اور بعدازاں سرحد سے گوردوارے تک تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر طویل ڈبل سڑک کی تعمیر کا منصوبہ ہے، جبکہ 27 کنال سے زائد پر پھیلے گوردوارے کے احاطے کے اندر اور باہر یاتریوں کی رہائش و خوراک کیلئے سروے کے علاوہ وسیع لنگر خانہ بھی تعمیر کیا جائے گا۔ امکانی طور پر گوردوارے کے آس پاس مارکیٹوں اور دکانوں کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ ابھی تک گوردوارہ کو مڑنے والی روڈ پر محض چار پانچ دکانیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق کرتار پور بارڈر خالصتاً بابا گورو نانک کی اس انتہائی اہم یادگار کے زائرین کیلئے کھولا جا رہا ہے۔ اس سے ضلع گورداسپور کے علاقے قادیان سے تعلق رکھنے والے قادیانیوں کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ جب پاک فوج کے سربراہ نے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ کو کرتار پور بارڈر کھولنے کی خوشخبری سنائی تو ان خبروں کو قادیانیوں کے آن لائن اخبارت ربوہ ٹائمز نے بھی بڑی اہمیت دی۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ ربوہ ٹائمز نے ان خبروں کو غائب کرنا شروع کر دیا۔ غالباً قادیانی گروہ کا خیال تھا کہ اس بارڈر کے کھولے جانے کا براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر انہیں بھی فائدہ ہو سکے گا۔ کیونکہ قادیانیوں کے ملعون بانی کی جنم بھومی قادیان بھی کرتارپور بارڈر سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔ تاہم اب یہ تجاویز سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں کہ سکھ یاتری پاکستان آیا کریں گے تو ان کی سرگرمیوں اور مصروفیات کا دائرہ گوردوارے کے احاطے کے اندر تک ہی ہوگا۔ البتہ دوسرے راستوں سے پاکستان پہنچنے والے سیکھ یاتری بلاشبہ راستے میں آنے والے شہروں اور قصبات میں ماضی کی طرح آجا سکیں گے۔
خیال رہے کرتارپور میں سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کی اس اہم یادگار اور گوردوارے میں بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کی زیادہ تعداد ماہ نومبر میں آتی ہے۔ جسے بابا جی گورو نانک کی سالگرہ کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ کرتارپور سے ’’امت‘‘ کو بتایا گیا ہے کہ سکھ یاتریوں کی تعداد 15 ہزار تک جا چکی ہے۔ اگلے سال جب اسی ماہ نومبر میں بابا جی گورونانک کا ساڑھے پانچ سوواں جنم دن منایا جائے گا تو اس سے کہیں زیادہ یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔ گوردوارہ کرتارپور کے ذرائع کے مطابق یاتریوں کی دوسری بڑی آمد اپریل کی 14 سے 18 تاریخ تک رہتی ہے۔ یہ تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ جبکہ ماہ ستمبر جو بابا گورو نانک کے انتقال کا مہینہ ہے، اس میں بھی یاتری آتے ہیں، لیکن ان کی تعداد پہلے دونوں مہینوں سے کم ہوتی ہے۔ گوردوارے کے ذرائع کے مطابق پندرہ سال پہلے تک یہ گوردوارہ مکمل طور پر بند تھا۔ جب پندرہ سال پہلے مشرف حکومت نے اس گورداوے کو کھولا تو ایک سے دو سو تک یاتری آئے۔ لیکن اس وقت انہیں بھی سنبھالنا آسان نہ تھا۔ کیونکہ 100 افراد کیلئے بھی گوردارے کے احاطے میں ٹھہرانے کیلئے جگہ موجود نہ تھی۔ بعد ازاں اسی گوردوارے میں ایک ہی وقت میں 3000 یاتریوں کو ٹھہرانے کی سہولت فراہم کی گئی۔ ان ذرائع کے مطابق ابھی وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کن امور پر کیا طے ہوگا۔ اس بارے میں ابھی سکھ کمیونٹی آگاہ نہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ سب سے پہلے دونوں اطراف انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہوگی۔ دریائے راوی کے پل کی تعمیر کیلئے سروے پاکستان کے اداروں نے شروع کر دیا ہے اور امکان ہے کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو اس پل کا سنگ بنیاد رکھ دیں گے۔ پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاک بھارت سرحد سے گوردوارے سے سڑک بچھائی جائے گی۔ اسی طرح یاتریوں کی سیکورٹی کے اقدامات کا تعلق ان کی تعداد سے بھی بہت منسلک ہوا۔ واضح رہے بابا گورو نانک نے 1521ء سے 1539ء کے درمیان کا عرصہ اسی گوردوارے والی جگہ پر گزارا تھا۔ اسی گوردوارے کے ساتھ ان کے ہاتھوں سے تعمیر کئے گئے کنویں کے حوالے سے یاتریوں کو سب سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے کہ یہ کنواں انہوں نے خود بنایا اور ان کے زیر استعمال رہا۔ آج بھی بربندھک کمیٹی نے اس کنویں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ چونکہ بابا گورو نانک کی زندگی کے آخری 18 برس اس خطے میں گزرے تھے اس لئے بھارت سمیت دنیا بھر کے سکھ یاتری اسے بہت متبرک سمجھتے ہیں۔ یہاں گوردوارے میں ایک سمادھی اور ایک قبر بھی موجود ہے۔ سکھ یاتری اسے بھی یکساں احترام دیتے ہیں۔ کیونکہ ان دونوں کو بابا گرو سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ سکھ روایات کے مطابق بابا گرو نانک کے انتقال کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں نے ان کی آخری رسومات کو اپنے اپنے طریقے سے کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی میت مبینہ طور پر غائب ہوگئی اور اس کی جگہ پھول اور ایک چادر رہ گئی۔ ان پھولوں اور چادر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مسلمانوں اور ہندوئوں کے حوالے کردیا گیا۔ مسلمانوں نے قبر میں دفن کردیا جبکہ ہندوئوں نے پھولوں اور چار کے دیئے حصے کو جلا دیا۔ ذرائع کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دریائے راوی میں سیلاب نے اس گوردوارے کو بھی تباہی سے دوچار کردیا۔ تاہم آگے آٹھ دس برسوں کے دوران اس گوردوارے کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ 15 برس قبل پاکستان کی حکومت نے اسے دوبارہ بحال کیا تو اس گوردوارے کی تعمیرات کا منصوبہ بھی بنایا۔ اب پاک بھارت سرحد سے تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلے پر موجود دودا میں قائم یہ گوردوار اب جنگل میں منگل کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب اس کی عمارت عملاً تین منزلہ ہے۔ ایک وسیع کمپائونڈ میں قیام گاہیں بھی بن چکی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آنے والے ’’ایس او پی‘‘ میں ہی طے ہوگا کہ ان سکھ یاتریوں کے گوردوارے تک پہنچنے کیلئے ٹرانسپورٹ انتظام کیا ہوگا اور کس کے ذمے ہوگا۔ یومیہ کتنے یاتری بھارت سے آئیں گے۔ انہیں پاکستان میں گوردوارے سے باہر جانے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ گوردوارے کے اندر ہزار یاتریوں کے قیام و طعام کا بندوبست ہوگا۔ نیز یہ کہ اگر وہ گوردوارے سے باہر جاسکیں گے تو کتنے کلو میٹر تک اور کن قریبی بستیوں تک جاسکیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق کرتارپور گوردوارے سے قریب ترین گائوں دودا ہے، اس کے بعد منظور پورہ پلاٹ ہے یہ بھی کوئی بہت بڑا گائوں نہیں اور نہ ہی یہاں چند دکانوں کے سوا کوئی کاروباری ماحول ہے۔ اس لئے اب ان دیہات کے علاوہ بھی ایک مارکیٹ کی ضرورت ہوگی۔ ذرائع کے مطابق ان دیہات میں چھوٹے زمیندار اور کسان یا زیادہ تر غریب لوگ ہیں۔ البتہ دریائے راوی کے پار بڑے زمیندار اور ان کی زمینیں ہیں۔ جبکہ ان کی زمینوں تک پہنچنے کیلئے بھی دریا پر کوئی مستقل پل نہیں ہے۔ چند کشتیاں ہیں جو بڑے زمینداروں نے اپنے استعمال کیلئے بنا رکھی ہیں۔ گوردوارے سے بارڈر تک راستہ کچا ہے۔ جب دو طرفہ بنیادوں پر معاملات طے ہوجائیں گے تو اس کے بعد یہ طے ہوگا کہ ایف آئی اے کا امیگریشن آفس بنے گا۔ کون کون سے دوسرے اداروں، پولیس اور سیکورٹی اداروں کی ضرورت ہوگی۔ مارکیٹ کہاں بنے گی۔ اگر ہزاروں لوگ یاتریوں کی صورت میں آئے ہیں تو ان کو قریب تر سے خوراک اور رہائش سے متعلقہ اشیا کی فراہمی کہاں سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ حتیٰ کہ پانی اور بجلی گیس کی فراہمی کے بھی امکانات کو دیکھا جائے گا۔ جس کے بعد بہرحال پورے علاقے میں کاروباری سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ دریں اثنا پربندھک کمیٹی کے ذمہ دار اور سردار رمیش سنگھ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں جو بھی فیصلے کریں گی ہم بطور پربندھک کمیٹی اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کیلئے تیار ہیں۔ فی الحال ہم نہیں کہہ سکتے کہ سالانہ کتنے یاتری آئیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قادیانی گوداسپور ضلع میں ہیں تو بھی اس گوردوارے کیلئے کرتارپور بارڈر کھلنے سے ان کا کوئی تعلق نہ سمجھا جائے۔ قادیانیوں کا اس سے کیا تعلق۔ یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment