دفتر خارجہ نے وزیراعظم اور آرمی چیف کے موقف کو زک پہنچائی

وجیہ احمدصدیقی
دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان پر جو الزامات لگائے، ان کا وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے مسکت جواب دیا گیا۔ لیکن دفتر خارجہ کے اس بیان نے کہ ’اسامہ کی تلاش میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مدد کی تھی‘، عمران خان اور جنرل باجوہ کے موقف کو زک پہنچائی۔ جب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سوالات اٹھے کہ اگر یہ سب کچھ کرنا جائز تھا تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیا جرم تھا؟ تو اس پر دفتر خارجہ کی جانب سے جو جواب دیا گیا، وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق تھا کہ ہمارا تعاون ریاستی تھا اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعاون انفرادی تھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دفتر خارجہ نے اسامہ کے حوالے سے بیانات دیکر اپنے ہی موقف سے انحراف کیا ہے۔ 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکہ نے جو حملہ کیا تھا، اس پر اس وقت سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے اسے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ عسکری اور خارجہ امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دفتر خارجہ کے بیانات سے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ کے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے والے موقف کو شدید زک پہنچی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کو تقویت دی جارہی ہے، جن کے نتیجے میں پاکستان امریکہ کے دبائو میں آجائے اور کبھی بھی پورے قد سے کھڑا نہ ہوسکے۔
عسکری تجزیہ نگار سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انفرادی طور پر جن لوگوں نے اسامہ کے بارے میں معلومات دی تھیں، دفتر خارجہ نے ان سے فائدہ اٹھایا، ان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی اور پاکستان سے غداری کرنے والا بریگیڈیئر بھی شامل ہے۔ پاکستان نے القاعدہ کے جنگجوئوں کی تلاش میں امریکہ کی مدد کی تھی اور اسامہ بن لادن کے حوالے سے کویتی باشندے کی کال انٹر سپٹ کی تھی، لیکن امریکہ نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر از خود کارروائی کر ڈالی، جس سے پاکستان کی خود مختاری کو زک پہنچی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ اصل دہشت گردی تھا یا نہیں۔ کیونکہ آج تک اس بارے میں امریکہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا ہے کہ اس واقعے میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کس طرح ملوث تھی اور کیا اسامہ بن لادن کے پاس امریکہ سے بڑھ کر کوئی ٹیکنالوجی تھی، جس کا امریکہ سراغ نہیں لگا سکا۔ ایسا کون سا نیٹ ورک تھا کہ افغانستان کے غاروں میں بیٹھے ہوئے اسامہ بن لادن نے دنیا کے سب سے بڑے ترقی یافتہ ملک امریکہ کی ٹیکنالوجی اور الیکٹرونک سیکورٹی کو مات دیتے ہوئے بیک وقت نیویارک اور واشنگٹن کے حساس ترین علاقوں میں حملہ کیا۔ امریکی دعوے کے مطابق اس حملے میں نہ کوئی پاکستانی ملوث تھا اور نہ ہی کوئی افغانی۔ لیکن پھر پاکستان اور افغانستان ہی نشانہ بنائے گئے۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ دفتر خارجہ کی جانب سے جو بیانات جاری کیے گئے ہیں، وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہیں۔ اب امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو الزام دے کر دبائو بڑھانا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کررہا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان پر دبائو ڈالے۔ لیکن وہ پاکستان کو ماضی میں استعمال کیے گئے ہتھکنڈوںکے طریقے پر دبائو میں لانا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے کے جرم میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قید کر رکھا ہے اور دفتر خارجہ ابھی تک امریکہ کی خوشنودی والے بیانات کی ذہنیت سے باہر نہیں آیا ہے۔ اُس وقت بھی پہلے دفتر خارجہ نے اس آپریشن کی تعریف کی تھی اور بعد میں سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے اس واقعے کو پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا تھا۔ اب دفتر خارجہ کا انداز نہایت معذرت خواہانہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ گڑگڑا کر یہ بتایا جارہا ہے کہ ہم نے آپ کے لئے یہ خدمات انجام دی ہیں۔ جبکہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ نائن الیون کا اصل ذمہ دار اور دنیا کا اصل دہشت گرد کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو مانگا تھا تو طالبان نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے ثبوت طلب کئے تھے۔ تاہم امریکہ نے ثبوت دینے سے انکار کردیا تھا اور اسامہ کی حوالگی پر اصرار کیا تھا۔ اس پر طالبان نے امریکہ کو جواب دیا تھا کہ ہم اپنے مہمان کو اس طرح دشمن کے حوالے نہیں کرتے۔ لیکن جب عالمی دبائو بڑھا تو طالبان اسامہ بن لادن کو کسی تیسرے غیر جانبدار ملک کے حوالے کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ مگر امریکہ اس کیلئے تیار نہیں ہوا۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ دراصل امریکہ کا اصل نشانہ پاکستان اور اس کا ایٹمی پروگرام ہے۔ بقول جنرل حمید گل مرحوم نائن الیون بہانہ تھا، افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔ اسی بہانے امریکہ افغانستان میں اترا اور وہاں اپنے ٹھہرنے کا یہ جواز دیا کہ وہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو تلاش کررہا ہے۔ لیکن اسے نہ اسامہ ملا اور نہ ہی ملاعمر۔ اسامہ بن لادن سمیت طالبان کی تمام لیڈر شپ تورا بورا کے پہاڑوں میں تھی۔ خود کئی امریکی اخبارات کا دعویٰ تھا کہ اسامہ بن لادن تورا بورا پر حملوں میں ہی مارے گئے تھے۔ امریکہ نے ان پہاڑوں پر ٹنوں کے حساب سے نیم جوہری بم ڈیزی کٹر کی بمباری کی تھی۔ اس کے بعد سے اسامہ بن لادن کی کوئی نئی ویڈیو یا تصویر سامنے نہیں آئی۔ سوال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کیا واقعی ایبٹ آباد میں موجود تھا؟ کیونکہ امریکہ اپنے دشمنوں کی گرفتاری کا جشن مناتا ہے۔ چاہے وہ صدام حسین کی پھانسی ہو یا معمر قذافی کا امریکیوں کے ہاتھوں قتل۔ لیکن اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کی کوئی تصویر نہیں دکھائی گئی۔ وہاں اسلامی تعلیمات کا بہانہ تراشا گیا۔ اس لیے ایبٹ آباد آپریشن کا معاملہ مشکوک ہے۔ آصف ہارون نے کہا کہ فوج کو امریکی آپریشن کا علم نہیں تھا، لیکن اس وقت کے صدر آصف زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو اس کا بخوبی علم تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکی اخبارات میں آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے اسی دن صدر آصف زرداری کا مضمون شائع نہ ہوتا جو نہایت اعلیٰ درجے کی انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ دفتر خارجہ کو یہ سب کچھ یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ نے اپنے آپریشن کو شیئر نہیں کیا تھا۔ پاکستان نے اس کویتی کی کال ٹریس کی تھی جو اسامہ بن لادن کے لیے کام کرتا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے انفرادی طور پر بریگیڈیئر اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مدد حاصل کی، یہ غداری تھی۔ حالانکہ پاکستان اس سے قبل اپنے ملک سے القاعدہ کے کئی لوگوں کو امریکہ کے حوالے کرچکا تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment