معارف القرآن

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اول خود انسان کی تخلیق کی حقیقت کو واضح فرمایا، پھر انسانی ضروریات کی تخلیق کی حقیقت سے پردہ اٹھایا، خود انسان کو مخاطب کر کے سوالات کئے، ان سوالات کے ذریعے اصل جواب کی طرف رہنمائی فرمائی، کیونکہ سوالات میں ان اسباب کی کمزوری اور ان کی علت تخلیق نہ ہونا واضح فرما دیا۔
آیات مذکورہ میں پہلی آیت ایک دعویٰ ہے اور اگلی آیات اس کے دلائل ہیں، سب سے پہلے خود انسان کی تخلیق پر ایک سوال کیا گیا، کیونکہ غافل انسان چونکہ روز مرہ اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے کہ مرد و عورت کے اختلاط سے حمل قرار پاتا ہے اور پھر وہ رحم مادر میں بڑھتا اور تیار ہوتا رہتا ہے اور نو مہینے کے بعد ایک مکمل انسان کی صورت میں پیدا ہو جاتا ہے، اس روز مرہ کے مشاہدہ سے غفلت شعار انسان کی نظر بس یہیں تک رہ جاتی ہے، کہ مرد و عورت
کے باہمی اختلاط ہی کو تخلیق انسانی کی علت حقیقی سمجھنے لگتا ہے، اس لئے سوال یہ کیا گیا: اے انسان! ذرا غور تو کر کہ بچے کی پیدائش میں تیرا دخل اس کے سوا کیا ہے کہ تو نے ایک قطرہ منی ایک خاص محل میں پہنچا دیا، اس کے بعد کیا تجھے کچھ خبر ہے کہ اس نطفہ پر کیا کیا دور گزرے، کیا کیا تغیرات آئے، کس کس طرح اس میں ہڈیاں اور گوشت پوست پیدا ہوئے اور کس کس طرح اس عالم اصغر کے وجود میں کیسی نازک نازک مشینیں غذا حاصل کرنے، خون بنانے اور روح حیوانی پیدا کرنے کی پھر دیکھنے، بولنے، سننے چکھنے اور سوچنے سمجھنے کی قوت اس کے وجود میں نصب فرمائیں کہ ایک انسان کا وجود ایک متحرک فیکٹری بن گیا، نہ باپ کو خبر ہے نہ ماں کو، جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، آخر اگر عقل دنیا میں کوئی چیز ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ عجیب و غریب حکمتوں پر مشتمل انسانی وجود کیا خود بخود بغیر کسی کے بنائے بن گیا؟ اور اگر کوئی بنانے والا ہے تو وہ کون ہے؟ ماں باپ کو تو خبر بھی نہیں کہ کیا بنا کس طرح بنا؟ ان کو تو وضع حمل تک یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ حمل لڑکا ہے یا لڑکی، پھر آخر وہ کونسی قدرت ہے جس نے پیٹ کی، پھر رحم کی، پھر بچے کے اوپر پیک کی ہوئی جھلی کی تین اندھیریوں میں یہ حسین و جمیل، سمیع و بصیر، سوچنے سمجھنے والا وجود تیار کردیا، یہاں جو ’’بڑی برکت والی ذات ہے جو بہترین پیدا کرنے والی ہے‘‘ بول اٹھنے پر مجبور نہ ہو جائے، وہ عقل کا اندھا ہی ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment