بنو قریظہ (یہودیوں) کے متعلق حضرت سعد بن عبادہؓ نے جو فیصلہ کیا، مخالفین اسلام نے بہت شدت کے ساتھ اس پر اعتراض کیا ہے۔ اس سخت فیصلے کی وجہ کیا تھی، اس کو جاننے کے لیے حسب ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہئے۔
1۔ جب حضور اکرمؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو پہلے ہی سال آپؐ نے یہود سے دوستانہ معاہدہ کیا، جس میں بنو قریظہ بھی شریک تھے اور اس معاہدہ کے بعد مسلمان اور بنو قریظہ حلیف کی حیثیت سے مل جل کر رہتے تھے۔
2۔ اس معاہدہ کے ذریعہ حضور اکرمؐ نے بنو قریظہ اور یہود کے دوسرے قبائل کو پوری پوری مذہبی آزادی دی تھی اور جان و مال کی حفاظت کا اقرار کیا گیا تھا۔
3۔ حضور اکرمؐ نے بنو قریظہ پر یہ خصوصی اکرام فرمایا تھا کہ اس معاہدہ میں سماجی زندگی میں ان کو دوسرے یہود کے مساوی اور برابر کردیا تھا، حالانکہ اس سے پہلے وہ مرتبہ میں وہ بنو نضیر سے کم تھے، یعنی بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو بنو نضیر کو آدھا خوں بہا دینا پڑتا تھا، بر خلاف اس کے بنو قریظہ پورا خوں بہا ادا کرتے تھے، چنانچہ معاہدہ کے بعد جب دیت کا ایک معاملہ پیش آیا تو انہوں نے زیادہ خوں بہا دینے سے انکار کردیا اور بنو نضیر کو یہ کہلا بھیجا کہ ’’ہم اب تک زیادہ دیت صرف تمہارے ظلم اور خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں، اب محمدؐ کے آنے کے بعد تو زیادہ دیت نہیں دے سکتے۔‘‘ (کیونکہ اب ظلم و زیادتی کا خوف نہیں رہا)
4۔ جب قریش نے ان کو معاہدہ شکنی پر آمادہ کیا تو وہ تیار ہوگئے۔ آنحضرتؐ نے ان سے تجدید معاہدہ کرنا چاہا۔ بنو نضیر نے انکار کیا اور جلاوطن کردئیے گئے، لیکن بنو قریظہ نے نئے سرے سے معاہدہ کرلیا۔ چنانچہ ان کو امن دے دیا گیا۔ بنو قینقاع جیسے دولت مند اور بہادر قبیلہ نے فتنہ انگیزی کی۔ چنانچہ 2ھ میں ان کا محاصرہ کیا گیا اور ان کا اخراج عمل میں آیا۔
5۔ باوجود معاہدہ ہونے کے عین غزوہ خندق کے موقع پر انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور علانیہ کفار کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔
6۔ بنو نضیر جب جلا وطن ہوئے تو ان کے رئیس اعظم حی بن اخطب، ابو رافع، سلام بن ابی الحقیق خیبر جاکر آباد ہوگئے۔ جنگ احزاب انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ قبائل عرب میں دورہ کرکے تمام ملک میں آگ لگا دی اور قریش کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس وقت تک بنو قریظہ معاہدہ پر قائم تھے، لیکن حی بن اخطب نے ان کو بہکا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کروائی۔ غزوئہ احزاب میں ان کا کردار بڑا گھناؤنا تھا، اگر ان کی مدد سے دشمن کامیاب ہو جاتا تو مسلمان کا صفایا ہو جاتا کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔ حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی، اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔
اس سلسلے میں حضورؐ پر کوئی اعتراض کیا جانا بنتا بھی نہیں کہ اس اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج (سعد بن عبادہؓ) نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی۔ بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص ام المومنین حضرت صفیہؓ جن سے غزوہ خیبر کے بعد حضورؐ نے نکاح کیا، کا باپ تھا۔
بنو نجار کی ایک خاتون کے متعلق حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیسؓ نے گزارش کی کہ سموال قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے، ان کی بھی گزارش منظور ہوئی اور رفاعہ کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا اور وہ بھی اسلام لا کر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔ چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔
ارباب سیر نے مقتولین کی تعد 600 سے زائد بیان کی ہے لیکن صحاح میں 400 ہے۔ ان میں صرف ایک عورت تھی۔ اس نے حضرت خَلاّد بن سویدؓ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا، اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا، گرفتار ہونے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد 750 تھی۔ جب بنو قریظہ کا کام تمام ہوچکا تو بندہ صالح حضرت سعد بن معاذؓ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا جو انہوں نے غزوئہ احزاب کے دوران مانگی تھی۔ چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا، اس وقت وہ مسجد نبویؐ میں تھے، نبی اکرمؐ نے ان کے لیے وہیں خیمہ لگوادیا تھا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں، حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ زخم ان کے سینے سے پھوٹ کر بہا، مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے، وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آرہا ہے، انہوں نے کہا: خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہماری طرف آرہا ہے؟ دیکھا تو حضرت سعدؓ کے زخم سے خون کی دھار رواں تھی، پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ (صحیح بخاری)
امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا ’’ان کا جنازہ کس قدر ہلکا ہے‘‘ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔‘‘ بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران ایک مسلمان شہید ہوئے، جن کا نام خلاّد بن سوَیدؓ ہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عکاشہؓ کے بھائی ابو سنان بن محصنؓ نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔ یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا۔ پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔ خدا نے اس غزوہ اور غزوہ خندق کے متعلق سورہ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔
٭٭٭٭٭