سیدہ رابعہ بصریہؒ اور جنتی بچی

حضرت مسمع بن عاصمؒ سے مروی ہے کہ حضرت رابعہ بصریہ عدویہؒ بہت زیادہ عبادت کیا کرتیں۔ ساری ساری رات قیام فرماتیں، دن کو روزہ رکھتیں اور تلاوت قرآن پاک کیا کرتیں۔ آپؒ کا ہرہر لمحہ یاد الٰہی میں گزرتا۔
آپؒ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں بہت زیادہ بیمار ہوگئی، جس کی وجہ سے میں تہجد کی دولت سے محروم رہی اور دن کو بھی اپنے پاک پروردگار کی عبادت نہ کر سکی۔ بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری آگئی، اسی طرح کئی دن گزر گئے، مجھے اپنی عبادت چھوٹ جانے کا بہت افسوس ہوا، لیکن بیماری کی حالت میں بھی جتنا مجھ سے ہو سکتا، میں عبادت کی کوشش کرتی، کبھی دن میں نوافل کی کثرت کرتی، کبھی رات کو نوافل پڑھتی۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔
پھر خدا نے کرم فرمایا اور مجھے صحت عطا فرمائی، میں نے دو بارہ نئے جذبے کے ساتھ عبادت شروع کر دی۔ سارا سارا دن عبادت الٰہی میں گزر جاتا اور اسی طر ح رات کو بھی عبادت کرتی۔
ایک رات مجھے نیند نے آلیا اور میں غافل ہو کر سوگئی۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں فضائوں میں اڑ رہی ہوں، پھر میں ایک سر سبز و شاداب با غ میں پہنچ گئی۔ وہ باغ اتنا حسین تھا کہ میں نے کبھی ایسا با غ نہ دیکھا۔ اس باغ میں بہت خوبصورت محل تھے، ہر طر ف بلند و بالا، سر سبز درخت تھے، جگہ جگہ پھولوں کی کیاریاں تھیں، درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے، میں اس باغ کے حسن و جمال کے نظارو ں میں گم تھی کہ یکایک مجھے ایک سبز پرندہ نظر آیا، وہ پرندہ اتنا خوبصورت تھا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی ایسا پرندہ نہ دیکھا تھا، ایک لڑکی اسے پکڑنے کے لئے بھا گ رہی تھی، میں اس خوبصورت لڑکی اور خوبصورت پرندے کو بغور دیکھنے لگی، اتنی دیر میں وہ حسین و جمیل لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی۔ میں نے اس سے کہا: ’’یہ پرندہ بہت خوبصورت ہے، تم اسے آزادی کے ساتھ گھومنے دو اور اسے مت پکڑو۔‘‘
میری بات سن کر اس لڑکی نے کہا: ’’کیا تمہیں اس سے بھی زیادہ خوبصورت چیز نہ دکھائوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ضرور دکھائو۔‘‘ یہ سن کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر مختلف باغات سے ہوتی ہوئی ایک عظیم الشان محل کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔ دروازہ فوراً کھول دیا گیا، اندر کا منظر بہت سہانا تھا، دروازہ کھلتے ہی ایک خوبصورت باغ نظر آیا، وہ لڑکی مجھے لے کر باغ میں آئی اور پھر ایک خیمے کی جانب چل دی۔ میں بھی ساتھ ساتھ تھی۔ اس نے حکم دیا کہ خیمے کے پردے ہٹا دیئے جائیں۔ جیسے ہی خادموں نے پردے ہٹائے تو اندر ایسی نورانی کرنیں تھیں، جنہوں نے آس پاس کی تمام چیزوں کو منور کر رکھا تھا۔ پورا خیمہ نور سے جگمگا رہا تھا۔ وہ لڑکی اس خیمے میں داخل ہوئی اور پھر مجھے بھی اندر بلا لیا، وہاں بہت ساری نوجوان کنیزیں موجود تھیں، جن کے ہاتھوں میں عود (یعنی خوشبو) سے بھرے ہوئے برتن تھے اور وہ کنیز یں عود کی دھونی دے رہی تھیں۔‘‘
یہ دیکھ کر اس لڑکی نے کہا: ’’تم سب یہاں کیوں جمع ہو؟ یہ اتنا اہتمام کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور تم کس لئے خوشبو کی دھونی دے رہی ہو؟‘‘ تو ان کنیزوں نے جواب دیا: ’’آج ایک مجاہد راہِ خدا میں شہید ہوگیا ہے، ہم اس کے استقبال کے لئے یہاں جمع ہیں اور یہ سارا اہتمام اسی مجاہد کی خاطر کیا جا رہا ہے۔‘‘
اس لڑکی نے میری جانب اشارہ کیا اور پوچھا: ’’کیا ان کے لئے بھی کوئی اہتمام کیا گیا ہے؟‘‘ تو ان کنیز وں نے کہا: ہاں، اس کے لئے بھی اس طر ح کی نعمتوں میں حصہ ہے۔‘‘ پھر اس لڑکی نے اپنا ہاتھ میری طر ف بڑھایا اور کہا: ’’اے رابعہ عدویہ! جب لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں، اس وقت تیرا نماز کے لئے کھڑا ہونا تیرے لئے نور ہے اور نماز سے غافل کر دینے والی نیند سراسر غفلت اور نقصان کا باعث ہے، تیری زندگی کے لمحات تیرے لئے سواری کی مانند ہیں اور جو شخص دنیاوی زندگی میں مگن رہے اور اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو فضول کاموں میں گزار دے تو وہ بہت بڑے خسارے میں ہے۔‘‘
یہ نصیحت آموز کلمات کہنے کے بعد وہ لڑکی میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ آپؒ فرماتی ہیں: ’’جب بھی مجھے یہ خواب یاد آتا ہے تو میں بہت زیادہ حیران ہوتی ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment