منافقین مدینہ کی گھنائونی سازش

مدینہ منورہ کے منافقین کو یہ بھی معلوم تھا کہ اسلام کے پھیلنے کا سرچشمہ رسول اقدسؐ کی ذات گرامی ہے، جو ان اخلاقی قدروں کا معجزے کی حد تک سب سے بلند نمونہ ہے۔ اسی طرح یہ دشمنان اسلام چار پانچ سال تک برسرِ پیکار رہ کر یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس دین اور اس کے حاملین کو ہتھیاروں کے بل پر نیست و نابود کرنا ممکن نہیں، اس لیے انہوں نے غالباً یہ طے کیا کہ اخلاقی پہلو کو بنیاد بنا کر اس دین کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کی جنگ چھیڑ دی جائے اور اس کا پہلا نشانہ خاص رسول اقدسؐ کی شخصیت کو بنایا جائے۔
چونکہ منافقین مسلمانوں کی صف میں پانچواں کالم تھے اور مدینہ ہی کے اندر رہتے تھے۔ مسلمانوں سے بلا تردّْد مل جل سکتے تھے اور ان کے احساسات کو کسی بھی ’’مناسب‘‘ موقع پر بآسانی بھڑ کا سکتے تھے، اس لیے اس پروپیگنڈے کی ذمہ داری ان منافقین نے اپنے سر لی یا ان کے سر ڈالی گئی اور ابن ابی رئیس المنافقین نے اس کی قیادت کا بیڑا اٹھایا۔
ان کا پروگرام اس وقت ذرا زیادہ کھل کر سامنے آیا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دی اور نبی اکرمؐ نے ان سے نکاح فرمایا۔ چونکہ عرب کا دستور یہ چلا آرہا تھا کہ وہ متبنیٰ (منہ بولے بیٹے) کو اپنے حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے اور اس کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے، اس لیے جب نبی اکرمؐ نے حضرت زینبؓ سے شادی کی تو منافقین کو نبی اکرمؐ کے خلاف شور و شغب برپا کرنے کے لیے اپنی دانست میں دو کمزور پہلو ہاتھ آئے۔
ایک یہ کہ حضرت زینبؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں، جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے، اس لیے یہ شادی کیونکر درست ہوسکتی ہے؟
دوسرے یہ کہ حضرت زینبؓ آپؐ کے منہ بولے بیٹے کی بیوی رہ چکی تھیں، اس لیے عرب دستور کے مطابق ان سے شادی کرنا نہایت سنگین جرم اور زبردست گناہ تھا، چنانچہ اس سلسلے میں خوب پروپیگنڈہ کیا گیا اور طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے۔ منافقین نے اس افسانے کا اتنی قوت سے پروپیگنڈہ کیا کہ اس کے اثرات کتب احادیث وتفاسیر میں اب تک چلے آرہے ہیں۔ اس وقت یہ سارا پروپیگنڈہ کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے اندر اتنا موثر ثابت ہوا کہ بالآخر قرآن مجید میں اس کی بابت واضح آیات نازل ہوئیں، جن کے اندر شکوکِ پنہاں کی بیماری کا پورا پورا علاج تھا۔ اس پروپیگنڈے کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سورۃ الاحزاب کا آغاز ہی اس آیت کریمہ سے ہوا:
ترجمہ: ’’اے نبی! خدا سے ڈرو اور کافرین و منافقین سے نہ دبو۔ بے شک خدا جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘
یہ منافقین کی حرکتوں اور کارروائیوں کی طرف ایک طائرانہ اشارہ اور ان کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ نبی اکرمؐ یہ ساری حرکتیں صبر، نرمی اور تلطف کے ساتھ برداشت کر رہے تھے اور عام مسلمان بھی ان کے شر سے دامن بچا کر صبر و برداشت کے ساتھ رہ رہے تھے، کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ منافقین قدرت کی طرف سے رہ رہ کر رسوا کیے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال ایک بار یا دو بار فتنے میں ڈالا جاتا ہے، پھر وہ (منافقین) نہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘ (9: 129)
(سیرت المصطفیٰ، مولانا ادریس کاندھلویؒ، الرحیق المختوم، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment