سرفروش

عباس ثاقب
میری بات سن کر امر دیپ نے حیرانی سے کہا ’’ گھوڑے پر؟ لیکن پھپھڑ جی کے پاس تو کوئی گھوڑا نہیں ہے!‘‘۔
میں نے کہا ’’پہلے کی بات چھوڑیں۔ اب وہ پہلی بار ایک اچھی نسل کے تنومند گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے گھر جا رہے ہیں جو مفت میں ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ اور مجھے پختہ یقین ہے کہ انہیں اس قیمتی گھوڑے کا مالک بنانے والے ہم دونوں ہی ہیں۔ اب بتائیں میں جیپ کس طرف گھماؤں۔ ہمیں اسی راستے پر پہنچنا ہے، جس پر وہ گھوڑے کے ذریعے جا سکتے ہیں‘‘۔
امر دیپ نے میری رہنمائی کی اور میں نے ایک نیم پختہ، نیم ہموار راستے پر جیپ ڈال دی ۔ میری رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ اس دوران میں نے الکھ سنگھ کے حوالے سے اپنا آج صبح کا مشاہدہ اور اس کے نتیجے میں اخذ کردہ نتائج امر دیپ کے گوش گزار کر دیئے۔ اس دوران میں راستے سے نظریں ہٹاکر وقتاً فوقتاً اس کے چہرے کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے رنگوں کا جائزہ لیتا رہا۔
میری بات تفصیل سے سننے کے بعد کوئی فوری ردِ عمل ظاہر کرنے کے بجائے وہ کچھ دیر کے لیے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ بالآخر اس نے گہری سانس بھر کر لگ بھگ بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’بھائی بہادرسنگھ ، میں بتا نہیں سکتا کہ کتنی شدت سے تمہارے اندازوں اور شکوک و شبہات کو جھٹلانا چاہتا ہوں۔ الکھ سنگھ جیسے بھی ہیں، ایک بزرگ کی حیثیت سے میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ میری پھوپھی کے انتقال کے بعد ان سے ہمارے خاندان کا براہ راست تعلق بظاہر ختم ہوگیا تھا، لیکن میرے پتا نے ان سے اپنے روابط مزید بڑھالیے‘‘۔
وہ چند لمحوں کے لیے پھر سوچ میں ڈوب گیا ’’لیکن تم نے جوکچھ بتایا ہے، اسے نظر انداز کرنا بھی سورج کو دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کرکے رات کا تصور کرنے کی کوشش ہوگا۔ میں دل و جان سے تمہارا موقف تسلیم کرتا ہوں اور میں تمہارے اس خیال سے بھی متفق ہوں کہ ہمیں ابھی اور اسی وقت ان کا راستہ روک کر تلاشی لینی چاہیے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ لیکن… میں یہ سوچ کر ہول کھارہا ہوں کہ اگر ہمارا یہ اندازہ غلط نکلا تو میں پھپھڑ جی اور ان کے خاندان، بلکہ اپنے پتا جی کے سامنے بھی زندگی بھرکے لیے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا‘‘۔
میں نے اس کے موقف پر غور کرتے ہوئے نرم لہجے میں کہا ’’آپ اپنی جگہ پر درست ہیں امر دیپ بھائیا، لیکن ان خطرناک شکوک و شبہات کی تصدیق یا تردید کرنا بھی آپ کے خاندان کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے میرے ذہن میں ایک درمیانی راستہ یہ آرہا ہے کہ الکھ سنگھ کا راستہ روکنے کا کام میں تنہا کروں گا۔ آپ الکھ سنگھ کی نظروں سے دور رہ کر صرف معاملے کے گواہ بنیں گے اور اگر ان کے قبضے سے واقعی ڈاکوؤں کا اسلحہ برآمد ہوجائے تو پھر آپ بھی سامنے آجانا۔ تب تو آپ میری بات کی سچائی مان چکے ہوں گے ناں؟‘‘۔
امر دیپ نے قدرے پرجوش لہجے میں کہا ’’ہاں، پھر تو تمہارا گھوڑے والا اندازہ بھی خود بخود درست ثابت ہوجائے گا۔ لیکن مزید احتیاط کے لیے میری ایک بات اور مان لو‘‘۔
میں نے سوالیہ نظروں سے امر دیپ کی طرف دیکھا۔ وہ بولا ’’ایسا کرو کہ تم منہ پر ڈھاٹا باندھ کر ان کے سامنے جاؤ اور ان کا سامان کھلواکر تلاشی لو۔ تمہارے پاس ریوالور تو موجود ہے ناں؟‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا ’’بالکل موجود ہے۔ لیکن آپ کی اس تجویز پر عمل کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ الکھ سنگھ جی بہت گھاگ انسان ہیں۔ میں آواز بدل کر بھی بات کروں تو وہ میرے قد کاٹھ اور چال ڈھال سے مجھے پہچان لیں گے۔ پھر یہ بھی تو دیکھیں میں اس وقت اسی لباس میں ہوں، جس میں میری الکھ سنگھ جی سے رات کو ملاقات ہوئی تھی‘‘۔
امر دیپ نے چونک کر کہا ’’اوہ، اس پر میں نے توجہ ہی نہیں دی تھی‘‘۔
میں نے کہا ’’بھائی، اس میں اتنا فکرمند ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اگر میرا اندازہ غلط نکلا تو زیادہ سے زیادہ وہ ناراض ہوکر آپ لوگوں سے میری شکایت لگائیں گے اور میرا حویلی میں داخلہ بند کروادیں گے، تو میرا خیال ہے کہ اتنی بڑی سازش کا انکشاف ہونے کے امکان کے مقابلے میں یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔ میں تو ویسے بھی اب زیادہ وقت پٹیالے میں ہی گزاروں گا اور چند دن بعد آپ لوگوں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاؤں گا‘‘۔
امر دیپ نے جوشیلے لہجے میں کہا ’’نہیں چھوٹے بھائی، الکھ پھپھڑ کے معاملے کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، اب تم ہمارے
گھر کے ایک فرد ہو۔ ہمارا رشتہ اب زندگی بھر قائم رہے گا۔ اچھا جو تمہارا دل چاہے، وہ کرگزرو، دیکھا جائے گا‘‘۔
میں نے پرخلوص لہجے میں کہا ’’بھائی امر دیپ، میں چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہوں، آپ لوگوں کی محبت ہمیشہ میرے دل میں تازہ رہے گی۔ اچھا یہ بتائیں، کیا کوئی دوسرا ایسا راستہ ہے، جس پر جیپ بھگاتے ہوئے ہم الکھ سنگھ جی سے آگے نکل جائیں اور پھر واپس اس راستے پر آکر ان کو روک سکیں۔ البتہ شروع میں صرف میں سامنے آؤں گا‘‘۔
امر دیپ نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’ہم کسی کچے راستے سے دائیں مڑکر فرلانگ بھر فاصلہ طے کر کے پکی سڑک پر پہنچ جائیں گے۔ وہ سڑک چٹھا ننھیرا قصبے جاتی ہے۔ پانچ چھ میل بعد ہم اسی طرح کچے سے گزرکر واپس اسی راستے پر آسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ الکھ پھپھڑ ہم سے پہلے گھوڑے پر اتنا فاصلہ طے نہیں کر سکتا۔ مجھے تو اب بھی سوچ سوچ کر حیرت ہو رہی ہے۔ لیکن لگتا ہے پھپھڑ جی کے چہرے سے نقاب اترنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment