رام مندر بنانے کے لئے دو لاکھ ہندو انتہا پسند ایودھیا پہنچ گئے

دلبیر سنگھ واہلا
بھارت بھر سے دو لاکھ سے زائد انتہا پسند ہندو ایودھیا، فیض آباد میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے پہنچ گئے ہیں۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مودی سرکار کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ 2019ء کے جنرل الیکشن سے قبل رام مندر کی تعمیر شروع نہیں کرتی تو پھر یہ کام بھارت بھر سے جمع ہونے والے ہندو کریں گے اور کسی عدالت یا مسلمانوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ فیض آباد میں مقیم مقامی صحافیوں نے بتایا ہے کہ دو لاکھ سے زائد ہندوئوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی، وشوا ہند وپریشد، شیو سینا، آر ایس ایس، بجرنگ دل، شری رام سینا سمیت درجنوں ہندو انتہا پسند جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور آج جمع ہونے والا ہندوئوں کا یہ مجمع بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا اعلان سمجھا جارہا ہے۔ لیکن اس پورے منظر نامہ میں دو لاکھ سے زیادہ ہندوئوں کو ریاستی بی جے پی اور مرکزی مودی حکومت کی آشیر باد حاصل ہے اور ان تمام کار سیوکوں کو جو پیدل، گھوڑا گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، رکشہ، کاروں اور بسوں سمیت ہوائی جہازوں اور ٹرینوں کے ذریعے ایودھیا پہنچے ہیں، راستے میں تمام تر سہولیات اور کھانا پینا فراہم کیا گیا۔ جبکہ ایودھیا میں رام مندر تعمیراتی کمیٹی نے ان کار سیوکوں کو رہائش سمیت کھانا بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے سریندر سنگھ نے دھرم سبھا کی حقیقت کھولتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جیسے ہم نے 6 دسمبر 1992ء کو ایک لمحہ میں بابری مسجد مسمار کردی تھی ویسے ہی ایودھیا میں جمع لاکھوں ہندو رام مندر کی تعمیر بھی ممکن بنا دیں گے اور پولیس سمیت کوئی بھی حکومتی فورس ہمیں روک نہیں پائے گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا وی ایچ پی کی دھرم سبھا کے دو لاکھ ہندوئوں کو اسی مقصد کیلئے جمع کیا گیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ اگلے مرحلہ میں ہم دس لاکھ ہندوئوں کو جمع کرکے رام مندر کی تعمیراتی جگہ کا گھیرائو کریں گے اور پورے ایودھیا کو اپنے قبضہ میں لے کر رام مندر کی تعمیر اور افتتاح کریں گے۔ ادھر اتر پردیش سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ساکشی مہاراج نے ایک بار پھر زہر افشانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماشی اور متھرا کی مساجد کو چھوڑو، چلو دہلی کی جامع مسجد گراؤ جہاں اب بھی ہندوئوں کی مورتیاں دفن ہیں۔ دو لاکھ ہندوئوں کی ایودھیا آمد اور رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے اتر پردیش کے انتہا پسند وزیر اعلی یوگی آدتیا ناتھ نے کہا ہے کہ ایودھیا میں جس جگہ ’’رام جی‘‘ کا مجسمہ رکھا ہوا ہے، ان کا مندر بھی اسی مقام پر لازمی بنے گا۔ اس کام کیلئے ان کو بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت حاصل ہے اور رام مندر کی تعمیر سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا جاسکتا۔ اتوار کو دو لاکھ سے زائد انتہا پسند ہندوئوں کی موجودگی میں سادھوئوں اور ہندو پجاریوں نے ’’رام مورتی‘‘ کی آرتی کی اور بھجن گایا۔ فیض آباد میں مقیم بھارتی میڈیا تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں جمع ہندوئوں کا بنیادی مقصد الیکشن سے قبل بھارتی ہندوئوں میں ’’ہندو بیداری‘‘ کی ایک ایسی لہر پیدا کرنا ہے جس کے نتیجہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر اگلی مدت وزارت عظمیٰ کیلئے مطلوبہ ووٹ حاصل کرسکیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اپنی ایک اہم رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوئوں کی جانب سے دھرم سبھا کے نام پر رام مندر کی تعمیر کی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے دو لاکھ ہندوئوں کو علامتی طور پر ایودھیا میں عین اس وقت بلوایا گیا ہے جب دسمبر کے پہلے ہفتے میں مسلمانان ہند بابری مسجد کی شہادت کا سوگ مناتے ہیں، جو 6 دسمبر 1992ء کو شہید کردی گئی تھی۔ یہ لاکھوں ہندو ایودھیا میں موجود رہ کر رام مندر کی تعمیر کیلئے جاری کام میں تیزی لا رہے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کیلئے پہلے سے موجود ایک ہزار سے زائد کار سیوکوں نے اپنا کام مزید تیز کردیا ہے۔ بھارتی لکھاری پراوین اتوتوش نے بتایا ہے کہ مرکز میں مودی اور ریاست میں یوگی سرکار کی جانب سے 70 ہزار سے زیادہ انڈسٹریل سیکورٹی فورس، پولیس فورس سمیت پیرا ملٹری فورس تعینات کرنے کا اعلان محض نمائشی ہے، جو رام مندر بنانے کیلئے ایودھیا پہنچنے والے مشتعل ہندو انتہا پسندوں کو روکنے کے بجائے ان کا استقبال کرنے پر مامور دکھائی دیتے ہیں۔ رام مندر تعمیر کی منیجنگ کمیٹی کے سربراہ نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ یہ آخری دھرم سبھا ہے اور اس کے بعد رام مندر کی حتمی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا اور کسی سپریم کورٹ، حکومت یا مسلمانوں کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ ادھر ایک بیان میں اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور’ سماج وادی پارٹی کے رہنما ایکھلیش یادیو نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ ایودھیا میں ممکنہ مسلم کش فسادات کو روکنے کیلئے فوج کی تعیناتی کا حکم دے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایودھیا میں لاکھوں انتہا پسند ہندوئوں کی بھارت بھر سے آمد کے بعد مقامی مسلمانوں کا جینا حرام ہوگیا ہے اور مسلمان اپنے روز مرہ کے کاموں اور ملازمتوں اور کاروبار کیلئے گھروں سے نہیں نکل پا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment