کے الیکٹرک کا غیر قانونی سسٹم ختم کرانے میں نیپرا ناکام

اسامہ عادل
ؕنیپرا کے الیکٹرک کے ایک درجن سے زائد فیڈرز کے ذریعے قائم غیر قانونی متوازی نظام ختم کرانے میں نا کام ہوگئی۔ شہر کے 60 کلومیٹر کی حدود میں قائم غیر قانونی ٹھیکیداری نظام دھڑلے سے چلایا جا رہا ہے۔ نظام کے خاتمے کیلئے نیپرا کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات بھی کے الیکٹرک نے ہوا میں اڑا دیے۔11 سال سے جاری اس غیر قانونی نظام نے صارفین اور نیپرا کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ کے الیکٹرک انتظامیہ نے 2007ء میں زیادہ منافع کے حصول کیلئے غیر قانونی ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کیا۔ اس سلسلے میں گوٹھوں سے شروع ہونے والا سلسلہ چائنہ کٹنگ بستیوں تک جا پہنچا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ 3 سال قبل ایک شہری کی جانب سے غیر قانونی متوازی نظام کے خلاف بھیجی گئی درخواست پر نیپرا اور کے الیکٹرک کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ 2 سال تک جاری رہا۔ 2016ء میں نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو تمام غیر قانونی کنکشن ختم کرنے سے متعلق حکم دیا گیا۔ تاہم کے الیکٹرک نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ نیپرا کی جانب سے اس سلسلے میں کے الیکٹرک کو تین بار مکتوب بھیجے گئے۔ 6 اگست 2018ء کو فائنل ریمانڈر 2018/8862/09 ٹی سی ڈی بھیجا گیا۔ فائنل ریمائنڈر میں نیپرا کے ڈپٹی ڈائریکٹر لشکر خان قمبرانی نے کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو افسر کو شہری کی درخواست پر کارروائی کے عنوان سے مکتوب بھیجا۔ نیپرا کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے فائنل ریمانڈر میں دو سابقہ خطوط کا حوالہ بھی دیا ، جو 7 جون 2018ء اور 2 جولائی 2018ء کو بھجوائے گئے تھے۔ تاہم کے الیکٹرک نے فائنل ریمانڈر بھی ہوا میں اڑا دیا۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ کے الیکٹرک کے غیر قانونی نیٹ ورک کے تحت سرجانی سے دھابیجی تک ایک درجن سے زائد فیڈرز ٹھیکے داری نظام کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر ڈسٹری بیوشن عامر ضیا اور ڈائریکٹر ریجن ارشد افتخار کی سرپرستی میں سرجانی سے دھابیجی تک 60 کلو میٹر کے علاقوں میں 300 سے زائد پی ایم ٹیز کے ذریعے غیر قانونی بجلی نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے سرجانی سے متصل نادرن بائی پاس کے گوٹھ، گڈاپ میں واقع فارم ہاؤسز، چائنہ کٹنگ بستیوں کے علاوہ یوسف گوٹھ، سرجانی، احسن آباد، گلشن غازیان، گلشن الٰہی، جو نیجو کالونی، مچھر کالونی، پائینر ہومز، ڈیلکس ٹاؤن، گل ہومز، حاجی جنت گل ٹاؤن، امین کمیٹی کالونی، روٹی کارپوریشن، محمد پور، عظیم آباد، دنبہ گوٹھ، قاسم گبول گوٹھ، درسانو چھنو کے گوٹھ، جیال شاہ گوٹھ اور سیف البلوچ گوٹھ میں ٹھیکیداری نظام کے تحت بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں نصب پی ایم ٹیز بھی غیر قانونی ہیں اور ان پر نمبر یا نام کا کوئی اندراج نہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت کے الیکٹرک ٹھیکے داروں کو فی یونٹ 5 روپے میں بجلی فروخت کرتی ہے جب کہ ٹھیکیداروں کی جانب سے صارفین سے فی یونٹ 14 روپے تک وصول کئے جاتے ہیں۔
کے الیکٹرک نے متوازی نیٹ ورک کیلئے کسی قسم کے اخراجات بھی نہیں کئے۔ کے الیکٹرک سے معاہدہ کرنے والا ٹھیکیدار کے الیکٹرک سے پی ایم ٹیز کی خریداری کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اسے ہائی ٹینشن لائن جو فیڈر سے پی ایم ٹی تک پہنچ رہی ہوتی ہے، اس کی بھی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ پی ایم ٹیز سے مکانوں تک بجلی کی فراہمی کیلئے ٹھیکیداروں نے سلور کے تار خرید کر انہیں کے الیکٹرک عملے سے نصب کرایا۔ جبکہ ٹھیکیدار نے صارفین سے فی کنکشن 20 ہزار سے 25 ہزار روپے تک وصول کئے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے ٹھیکے داروں سے ایک پی ایم ٹی پر 5 سے 8 لاکھ روپے کی وصولی کی جاتی رہی ہے جبکہ اس پی ایم ٹی سے بجلی حاصل کرنے والے صارفین، ٹھیکیداروں کو 10 سے 16 لاکھ روپے تک کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ کے الیکٹرک نے ابتدا میں گوٹھوں کو بجلی دینا شروع کی تو سرکاری اراضی پر چائنہ کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کرنے والے متحدہ کے ذمہ داران بھی اس ٹھیکیداری نظام میں کود پڑے جنہوں نے چائنہ کٹنگ پلاٹوں کے لئے غیر قانونی کنکشن حاصل کرنے کے ساتھ کے الیکٹرک سے دیگر مختلف علاقوں کے ٹھیکے بھی حاصل کئے اور کے الیکٹرک عملے کی مدد سے ہائی ٹینشن لائنوں سے لے کر لائیٹ ٹرانسمیشن تک لائنیں کے الیکٹرک کی پی ایم ٹیز سے منسلک کر دیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں کے الیکٹرک کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس غیر قانونی نیٹ ورک کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھا اور اس ضمن میں پہنچنے والے نقصان کی وصولی ان تمام صارفین سے کرنا شروع کی جو قانونی کنکشن رکھتے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ شہر میں قانونی صارفین سے اوور بلنگ کا سلسلہ اس نقصان کو پورا کرنے کیلئے شروع کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں کے الیکٹرک نے اس پورے غیر قانونی نظام سے دگنا منافع کمایا۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ شہر میں جاری اس غیر قانونی دھندے سے جہاں کے الیکٹرک سالانہ کروڑوں روپے وصول کر رہی ہے، وہیں کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر سطح کے افسران بھی شہر میں جاری اس نظام کے تحت ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کر تے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 2007ء سے جاری غیر قانونی نظام سے متعلق نیپرا حکام لا علم نہ تھے، تاہم اس کے باوجود اس کے خاتمے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر ارشد افتخار، ڈائریکٹر ڈسٹری بیوشن عامر ضیا اور کلسٹر انچارج امتیاز علی خان کی ایما پر گڈاپ ٹاؤن میں ٹھیکے داری نظام کے تحت 100 سے زائد پی ایم ٹیز نصب کی گئیں، جس سے مذکورہ افسران کو لاکھوں روپے کی اضافی آمدنی ہوئی۔ ذرائع نے بتا یا کہ آئی بی سی گڈاپ کے عملے کی مدد سے تین فیڈرز خان برادرز فیڈر‘ الاصف اسکوئر فیڈر اور پول 20 فیڈرز کے ذریعے 100 پی ایم ٹیز کو غیر قانونی طور پر بجلی کی ترسیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی جانب سے شاہ لطیف ٹاؤن میں بھی ٹھیکیداری نظام چلایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے شاہ لطیف ٹاؤن میں قائم غیر قانونی کمپنیوں کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ مختلف سیکٹرز کے رہائشیوں کو نئے کنکشن کی درخواست پر ایچ ٹی اور ایل ٹی کی مد میں کروڑوں روپے کا اسٹیمیٹ بنا کر دیا جاتا اور مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی بجلی کی فراہمی کا کہا جاتا۔ کے الیکٹرک کی ڈیمانڈ پر مکینوں نے الیکٹرک افسران سے ملاقاتیں کیں اور بتایا کہ ضابطہ کے مطابق نئے کنکشن کی رقم تو ادا کرسکتے ہیں تاہم ایچ ٹی اور ایل ٹی لائنیں اور پی ایم ٹیز کی مد میں کروڑوں روپے کی رقم ادا کرنا ان کے بس میں نہیں۔ اس پر کے الیکٹرک افسران کی طرف سے مکینوں کو علاقہ کے رکن اسمبلی کے ساتھ ایم ڈی اے سے رابطہ کر کے مذکورہ رقم فراہم کرنے کا کہا جاتا۔ کے الیکٹرک کے رویے سے تنگ مکینوں نے جب کنڈے سے بجلی استعمال کرنا شروع کی تو کے الیکٹرک نے کنڈا بلنگ کے نام سے اسکیم متعارف کرائی اور علاقائی سطح پر مختلف ناموں سے الیکٹرک کمپنیاں بنوادیں۔ انہیں گیارہ ہزار کی مین لائن سے کنکشن فراہم کیا گیا اور علاقے میں بجلی فراہم کرنے اور رقم وصولی کی ذمہ داری ٹھیکیداروں کے ذمہ لگائی۔ شاہ لطیف ٹاؤن میں قائم ہونے والی الیکٹرک کمپنیوں میں شاہ الیکٹرک اور غنی الیکٹرک شامل ہیں۔ غیر قانونی الیکٹرک کمپنیوں اور کے الیکٹرک کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کے مطابق کے الیکٹرک نے گیارہ ہزار کی مین لائن کے ذریعے پی ایم ٹیز کو بجلی فراہم کرنا تھی جبکہ علاقے میں پی ایم ٹیز لگانے اور ایل ٹی لائنیں ڈالنے اور اس کے ذریعے مکینوں کو بجلی فراہمی کی ذمہ داری ٹھیکیدار کمپنی کی تھی۔ کے الیکٹرک انتظامیہ نے ٹھیکیدار کمپنیوں سے فی پی ایم ٹی 25 سے 35 لاکھ روپے وصولی کے ساتھ ہی لاکھوں روپے سیکورٹی ڈیپازٹ کی مد میں بھی وصولی کی۔ مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد ٹھیکیداروں کی جانب سے علاقے میں ایل ٹی لائینوں کی تنصیب کے بعد فی کنکشن 15 ہزار روپے میں شہریوں کو فراہم کیا گیا جس کے بعد شہریوں کو ان لائنوں سے بجلی فراہمی کا عمل شروع ہوا۔ ٹھیکیدار کمپنیوں کی جانب سے ہر مکان پر میٹر نصب کیا گیا اور انہیں میٹر نمبر اور کنزیومر نمبر بھی الاٹ کیا گیا۔ پرائیوٹ کمپنی کے ملازمین ہر ماہ گھروں پر لگے میٹرز سے ریڈنگ حاصل کرنے کے بعد بل تیار کرتے ہیں اور ان بلز کے حساب سے مکینوں کو ہر ماہ ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ جبکہ بلوں کی ادائیگی کیلئے ان غیر قانونی کمپنیوں کی جانب سے شاہ لطیف ٹاؤن کے ہر سیکٹر میں اپنا دفتر بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں شہری اپنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی جانب سے مذکورہ کمپنیوں کو پی ایم ٹیز پر نصب میٹرز کی ریڈنگ کے حساب سے بل ارسال کیا جا تا ہے۔ شاہ لطیف ٹاؤن کے 17 سیکٹروں میں سے محض ایک سیکٹر ،17 اے میں کے الیکٹرک بجلی سپلائی کرتی ہے۔ جبکہ باقی تمام سیکٹرز جن میں سیکٹر 15، 16، سیکٹر 19 بی، 20 بی، سیکٹر 22 اے 22 بی سمیت دیگر سیکٹرز شامل ہیں ، ان تمام سیکٹرز میں کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی فراہمی کا ذمہ مقامی الیکٹرک کمپنی کو دیا گیا۔
’’امت‘‘ کو شاہ لطیف ٹاؤن میں کے الیکٹرک کی جانب سے غیر قانونی الیکٹرک کمپنی کو ایک پی ایم ٹی پر بھیجا گیا 9 لاکھ 95 ہزار روپے کا بل بھی حاصل ہوا جو کے الیکٹرک نے شاہ الیکٹرک انجینئرز کے نام سے جاری کیا۔ بل میں ٹیرف اے ون آر کے ساتھ منسلک لوڈ 225 ظاہر کیا گیا جبکہ استعمال شدہ یونٹ 88 ہزار 842 ظاہر کئے گئے۔ کے الیکٹرک عام گھریلو صارفین سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر 10 اعشاریہ 20 روپے اور 300 یونٹ سے زائد استعمال کرنے والے گھریلو صارفین سے بالترتیب 15 اعشاریہ 45 روپے کے حساب سے فی یونٹ رقم وصول کرتی ہے۔ جبکہ کے الیکٹرک کی جانب سے غیر قانونی الیکٹرک کمپنیوں سے 5روپے فی یونٹ وصول کیا جا تا ہے۔
’’امت‘‘ کو مذکورہ مقامی الیکٹرک کمپنی کی جانب سے شاہ لطیف ٹاؤن کے شہری کو بھیجا گیا بل بھی موصول ہوا، جس پر واپڈا کی پرانی تصویر لگی ہوئی ہے جبکہ بل کی تفصیلات میں الیکٹریسٹی چارجز، فکسڈ چارجز ،میٹر رینٹ ، الیکٹریسٹی ڈیوٹی، انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی ایڈجسٹمنٹ، ٹی وی لائسنس فیس کی مد میں وصولی کی جا رہی تھی۔ اسی طرح کے الیکٹرک انتظامیہ نے لسانی تنظیموں کی مدد سے اللہ بخش گوٹھ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ایک جعلی کمپنی بنائی جس کے ذریعے کروڑوں روپے کی وصولیاں کی گئیں۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ تین پی ایم ٹیز کے ذریعے 600 مکانات کو غیر قانونی طریقے سے بجلی فراہم کی جارہی ہے جن سے 120 گز کے تین سو گھروں سے ماہ وار 190 روپے، 200 گز کے 200 مکانات سے 25 سو روپے اور 240 گز کے 100 گھروں سے 3 ہزار روپے فی کس وصول کئے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں وصولی کیلئے ایک درجن سے زائد افراد بھرتی کئے گئے ہیں۔ علاقے میں شکایت دور کرنے کیلئے بھی ایک ٹیم موجود ہے جسے جعلی الیکٹرک کمپنی کی طرف سے شہزور ٹرک بھی فراہم کیا گیا ہے، مذکورہ ٹرک کا نمبر کے پی 0235 ہے جو علاقے میں شکایت دور کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ تفصیلات حاصل کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ شہزور پک اپ نوید اختر نامی شخص کی ملکیت ہے۔ ٹھیکیدار رضا علی کے مطابق اس نے کے الیکٹرک انتظامیہ کو 32 لاکھ روپے کی ادائیگی کر رکھی ہے اور اس حوالے سے اس کے پاس شواہد بھی موجود ہیں۔ ’’امت‘‘ کو آر الیکٹرک کی جانب سے شہری کو بھیجا گیا ایک بل بھی موصول ہوا۔ بل ہو بہو کے الیکٹرک کے بل کی طرح تھا جس میں بلنگ موڈ میں ایوریج ظاہر کیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ گڈاپ ٹاؤن کی 200 پی ایم ٹیز سے ہر ماہ 10 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچتا ہے جو قانونی صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے عام صارفین کو غیر معمولی بھاری بھرکم بل ارسال کئے جاتے ہیں۔ صارف کی جانب سے رابطہ کرنے پر انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ جو بل ان کے کمپیوٹر نے بنا کر دیا اس میں کوئی رد و بدل نہیں کیا جائے گا اور انہیں بہر صورت ادائیگی کرنا ہو گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپرا سے جاری لائسنس کے تحت کے الیکٹرک نیپرا کی اجازت کے بغیر آگے کسی بھی تقسیم کار کمپنی کو بجلی فروخت نہیں کر سکتی۔ اس طرح کی فروخت کیلئے سیکنڈ ٹائیر سپلائر معاہدہ ہوتا ہے جس کی نیپرا سے منظوری لازمی ہے۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک کے پاس موجود لائسنس کی شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کے الیکٹرک کو ہر برس یکم جولائی کو اپنی گیارہ ہزار کے وی اے سسٹم کا نقشہ نیپرا کو جمع کروانا ہوتا ہے۔ تاہم کے الیکٹرک انتظامیہ چوری چھپے چلائے جانے والے غیر قانونی نیٹ ورک کو بچائے کیلئے ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کے نقشے بھی نیپرا میں جمع نہیں کرتی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment