پولیس میں نہ آتی تو چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہوتی

محمد زبیر خان
کراچی میں چین کے قونصل خانے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں سے مقابلے کے بعد ہیروئن بن کر ابھرنے والی ایس پی کلفٹن سہائی عزیز تالپور کا کہنا ہے کہ اگر پولیس میں نہ ہوتی تو چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہوتی۔ انہوں نے چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی تعلیم کے علاوہ اکنامکس میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ سہائی عزیز نے سی ایس ایس میں شاندار کامیابی کے بعد پولیس سروس کا انتخاب کیا تھا۔
’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران سہائی عزیز تاپور نے بتایا کہ ’’بچپن میں اور دوران تعلیم کبھی بھی یہ خواہش نہیں تھی کہ پولیس فورس جوائن کروں۔ ذہن میں بس یہ تھا کہ صرف پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ اسی وجہ سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی اور اکنامکس میں ایم اے بھی کیا۔ اگر میں پولیس افسر نہ ہوتی تو چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہی ہوتی۔ جب سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد مجھ سے میری چوائس پوچھی گئی تو میں نے پولیس کا انتخاب کیا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر اور پولیس، دو ایسے شعبے ہیں جن کا تعلق براہ راست انسانیت سے ہے اور یہ براہ راست دکھی انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے پولیس کا انتخاب کیا تھا۔ مجھے پولیس فورس جوائن کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ والدین نے حوصلہ افزائی کی تھی۔ میرا بچپن عام لڑکیوں کی طرح تھا ، میرے بارے میں اب جو تاثر ابھر رہا ہے کہ میں بچپن میں بڑی لڑاکو وغیرہ ہوں گی، تو وہ غلط ہے۔ بلکہ میں بہت ہی ریزرو اور کم گو تھی، زیادہ دوستیاں بھی نہیں تھیں۔‘‘
سہائی عزیز کا کہنا تھا کہ ’’2011ء میں فیصلہ کیا کہ سی ایس ایس کرنا ہے۔ درحقیت سی ایس ایس تو ایک طرح کی قسمت ہوتی ہے کہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ سی ایس ایس کے بعد دوران تربیت بھی میری کارگردگی شاندار رہی تھی۔ میری پوسٹنگ جب حیدرآباد میں ہوئی تو وہاں ایک جرائم پیشہ شخص جس کو ’’کوڈو‘‘ کے نام کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا، اس کے ساتھ مقابلہ ہوا تھا۔ اس کی گرفتاری پر پانچ لاکھ روپے انعام تھا وہ مقابلہ بھی میں نے کامیابی سے کیا تھا۔ اسی طرح مہران یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے ایک بم نصب کیا تھا جس کی اطلاع مجھے ملی تو میں موقع پر پہنچ گئی۔ وہاں پر بہت زیادہ گھبراہٹ اور پریشانی تھی۔ میں نے حالا ت کو قابو میں کیا اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی مدد سے اس بم کو ناکارہ بنایا۔
سہائی عزیز کا کہنا تھا کہ ’’چینی قونصلیٹ پر حملے کی اطلاع ملتے ہی میں فوری طور پر وہاں صرف اپنے گارڈز اور ڈرائیور کے ہمراہ پہنچ گئی تھی۔ جب موقع پر پہنچی تو وہاں پر فائرنگ کی آوازیں رہی تھی اور دھواں بھی تھا جس کے بعد میں نے نفری اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بلایا اور وہاں سے ہم آگے بڑھے تو ہمارے ایک شہید جوان کو ایمبولینس میں ڈالا جارہا تھا۔ یہ ایک خطرناک حملہ تھا، دہشت گرد براہ راست پولیس پارٹی، جس کی میں قیادت کررہی تھی، حملے کررہے تھے۔ مجھ سے پہلے چینی قونصلیٹ کے اندر مورچوں پر موجود اہلکار، بڑی بہادری سے شت گردوں کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے۔ اس موقع پر دہشت گردوں نے ہم پر گرینڈ سے بھی حملے کئے تھے اور تین گاڑیاں جلا دی تھیں۔ لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا ارادہ چینی قونصل خانے میں گھس کر عملے کو یرغمال بنانا تھا۔‘‘ ان کاکہنا تھا کہ ’’دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ گولیاں میرے آس پاس گر رہی تھیں۔ دہشت گردوں نے ہم پر گرینیڈ بھی استعمال کئے تھے۔ ایک گھنٹے کے بعد جب یقین ہوگیا کہ دہشت گرد ختم ہوچکے ہیں تو ہم آگے بڑھے۔ اس وقت ہمارے ایک جوان جو کہ وہاں پر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، کی ڈیڈ باڈی کو ایمبولینس میں ڈالا جارہا تھا۔ جب میں قونصلیٹ میں داخل ہوئی تو اس وقت وہاں کے عملے اور بالخصوص وہاں پر موجود ایک چینی خاتون نے مجھے دیکھ کر جس ری ایکشن کا مظاہرہ کیا وہ الفاظ میں بیان نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ اس موقع پر ہم نے انہیں یقین دلایا کہ وہ محفوظ ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حملے کو ناکام بنانے والے ہمارے شہید پولیس اہلکار ہیں، جنہوں نے جانوں پر کھیل کر اپنے فرائض کو انجام دیا۔‘‘
واضح رہے کہ سہائی عزیز تالپور کیلئے پولیس کا اعلیٰ ترین اعزاز قائد اعظم میڈل دینے کی سفارش کی گئی ہے، جو پہلی مرتبہ کسی خاتون پولیس افسر کو دیا جائے گا۔ سہائی عزیز تالپور کے والد عزیز تالپور سندھ کے پرانے سیاسی ورکر ہیں۔ وہ عوامی تحریک میں رسول بخش پلیجو کے ساتھ شامل رہے تھے، مگر اب وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور ادیب ہیں۔ سہائی عزیز کراچی میں تعنیاتی سے قبل ایس پی جامشورو تعینات رہی تھیں، جہاں وہ خواتین کی اینٹی ہراسمنٹ سیل کی سربراہ بھی تھیں۔ بعد ازاں سہائی عزیز کو ایس پی کلفٹن تعینات کیا گیا، جہاں انہوں نے پوش علاقوں میں طالب علموں میں منشیات کے پھیلائو کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment