شیطان سے مقابلے کا سبق آموزواقعہ

دیوبند میں مولانا مفتی شفیع صاحبؒ کے ایک قریبی عزیز و دوست اور ساتھی مولانا نعیم دیوبندیؒ بڑے ہونہار صاحب علم و عمل اور فاضل دارالعلوم دیوبند تھے۔ ان کی کم عمر ہی میں صحت خراب ہو گئی تھی اور حالت نازک ہوتی چلی گئی۔ ان کا نزع کے عالم میں کافی دیر تک شیطان لعین سے مناظرہ ہوتا رہا اور وہ اپنی ایمانی قوت کے ذریعے شیطان کے فریب کا جواب دیتے رہے۔
اس عبرت ناک اور حیرت ناک منظر کا خود حضرت مولانا مفتی شفیعؒ دیوبندی نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا اور مرحوم کی وفات کے بعد مولانا مفتی شفیعؒ نے ’’النعیم المقیم‘‘ کے نام سے ایک چھوٹے سے رسالے میں مولانا محمد نعیمؒ کے حالات تحریر فرمائے ہیں اور قصے کی تفصیل لکھتے ہوئے حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
عصر کے قریب بار بار متلی ہونے لگی کہ اتنی فرصت نہ ملتی تھی کہ جس میں نماز ادا کر لیں، مجھے بلا کر مسئلہ پوچھا کہ میں اس وقت معذور کے حکم میں داخل ہوں یا نہیں؟ میں نے اطمینان دلایا کہ تم معذور ہو، اسی حالت میں نماز پڑھ سکتے ہو، اس وقت تک وہ اسی عالم مشاہدہ میں تھے اور ارادہ کیا کہ متلی سے کچھ سکون ہو تو نماز ادا کروں، لیکن اتنی ہی دیر میں دوسرے عالم کا مشاہدہ ہونے لگا، بعد نماز مغرب جب احقر پہنچا تو حاضرین نے بیان کیا کہ کچھ دیر سے حواس میں اختلال ہے اور ہذیان کی باتیں کر رہے ہیں، لیکن جب احقر داخل ہوا تو اچھی طرح پہچان کر مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میرے سر پر ہاتھ رکھ دو اور دعا پڑھ دو اور حضرت میاں صاحب (سید و مولانا حضرت مولانا اصغر حسینؒ محدث دارالعلوم دیوبند) سے میرا سلام کہہ دیجئے گا۔ اس کے بعد ہی شیطان رجیم سے مناظرہ ہوا اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک اس کا سلسلہ احقر کی موجودگی میں جاری رہا۔ اس سلسلے میں مجھے خطاب کر کے کہا کہ مردود مجھے عصر کے وقت سے تنگ کررہا ہے۔
اب معلوم ہوا کہ حاضرین جسے ہذیان سمجھ رہے تھے (وہ ہذیان نہیں، بلکہ) اس مردود شیطان کے ساتھ خطاب تھا، مرحوم کی ہمشیرہ پاس موجود تھی اور دوسرے بہت سے مرد و عورت جو پاس تھے، ان کا بیان ہے کہ مغرب سے کچھ دیر پہلے (جوکہ جمعہ) کے روز بہت سی روایات و آثار کے اعتبار سے قبولیت دعا کی گھڑی ہے، اول مختصر سی وصیت اپنی دو دن کی قضا شدہ نمازوں کے متعلق کی اور پھر بہت گڑگڑا کر تضرع و زاری کے ساتھ حق تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’اے میرے پروردگار میں بہت بدعمل و سیاہ کار ہوں، ساری عمر معاصی و غفلتوں میں گزاری ہے، میں تجھے کس طرح منہ دکھائوں، لیکن تیرا ہی ارشاد ہے: ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے جاتی ہے۔‘‘ اس لیے میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، یہ تضرع و زاری کی دعا اس شان سے ہوئی کہ عالم حاضرین پر رقت طاری تھی۔
دعا کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا کہ باآواز بلند کہا کہ میں تیمم کروں گا۔ ہمشیرہ نے مٹی کا ڈھیلہ سامنے کر دیا۔ تیمم کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ مردود تجھے بتلائوں گا کہ تو مجھے حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کس طرح کرنا چاہتا ہے۔ میں بھی مایوس نہیں ہوں گا۔ مجھے اس کی رحمت سے بڑی امیدیں ہیں۔ اس کی رحمت کے بھروسے پر کہتا ہوں کہ میں ضرور جنت میں جائوں گا۔
تو ایک موٹی سی کتاب لے کر اس وقت مجھے بہکانے آیا ہے۔ تجھے اس لیے یہ جرأت ہوئی کہ سترہ روز سے مسجد نہیں گیا، مگر میری یہ غیر حاضری خدا کے حکم سے تھی۔
اس کے بعد آیت کریمہ پڑھی اور اس کی اگلی آیت ’’و کذالک ننجی المومنین‘‘ (بار بار) پڑھتے رہے اور شیطان سے مخاطب ہو کر کہا کہ مردود تو یہ بھلانا چاہتا ہے اور میں اس کو نہیں بھول سکتا۔ یہ آیت مجھے حضرت میاں صاحبؒ (حضرت مولانا اصغر حسینؒ) نے بتلائی ہے اور مولوی محمد شفیعؒ نے بتلائی ہے اور پھر بار بار یہی جملہ پڑھنا شروع کر دیا۔ کمرہ گونج اٹھا (مولانا شفیعؒ فرماتے ہیں) یہ باتیں میرے پہنچنے سے پہلے ہو چکی تھیں۔ جن کو حاضرین نے اختلال حواس سمجھا تھا، مگر میرے پہنچنے پر مجھے اچھی طرح پہچان کر خوش ہوئے اور دعا کی درخواست اور حضرت میاںؒ کو سلام عرض کرنے کی وصیت وغیرہ سے صاف ظاہر ہوا کہ اس وقت بھی اختلال حواس نہ تھا، بلکہ دشمن خدا ابلیس لعین کو دیکھ کر اس سے مقابلہ کر رہے تھے۔ چنانچہ میرے حاضر ہونے کے بعد مجھ سے کہا کہ یہ مردود مجھے عصر کے وقت سے تنگ کررہا ہے۔ میں نے ’’لاحول ولاقوۃ…‘‘ کی تلقین کی تو بلند آواز سے اس کو پڑھا اور کہا خبیث اب تجھے بتلائوں گا تو مجھے کیوں بہکانے آیا ہے۔ کلمہ طیبہ میرے دل میں گڑا ہوا ہے۔ میرے رب کا نام میری رگ رگ میں بسا ہوا ہے۔ حاضرین میں سے کسی نے کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ پڑھا تو اس کو پڑھ کر کہا کہ آگے کیوں نہیں کہتے؟
منہ سے خون کی قے جاری تھی اور جب اس سے فرصت ملتی تو کبھی کلمہ طیبہ پورا پورا باآواز بلند پڑھتے تھے اور کبھی لاحول ولاقوۃ… اور کبھی آیت کریمہ اور کبھی شیطان سے خطاب کر کے کہتے اس کو مارو، اس کو مارو۔
اس وقت اس چھ ماہ کی مدت کے مریض کی یہ حالت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ اب کشتی لڑنے کو کھڑا ہو جائے گا۔ ایک مرتبہ کہا تو نے سمجھا ہو گا یہ نازک وقت ہے، اس وقت بہکا دوں گا، اب میرے بدن میں جرأت آگئی ہے، اب تجھے بتلائوں گا۔ اس کے بعد کہا کہ یہ بہت سے آدمی ہیں (وہاں سامنے کھڑے ہونے والے صرف دو تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فرشتے نظر آرہے تھے، غالباً فرشتوں سے خطاب کر کے) کہا کہ اب تو خدا تعالیٰ کے یہاں لے چلو۔
بار بار کلمہ طیبہ پڑھتے رہے، بالآخر ساڑھے نو بجے شب کو اس مسافر آخرت نے اپنی منزل طے کرلی۔ (از رسالہ النعیم المقیم)
حاصل… بے شک اسے کہتے ہیں خاتمہ بالخیر کہ مرتے وقت اپنے خدا کو یاد کر رہے ہیں اور جب شیطان بہکانے کی کوشش کررہا ہے تو اس سے مقابلہ کررہے ہیں، حق تعالیٰ ہمیں بھی ایسی ہی ایمان والی موت نصیب عطا فرمائے، آمین یارب العالمین۔

Comments (0)
Add Comment