قسط نمبر: 182
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
لگ بھگ چوتھائی میل بعد امر دیپ کی ہدایت پر میں نے جیپ دائیں طرف جانے والے ایک کچے راستے پر ڈال دی۔ وہ راستہ شاید صرف بیل گاڑیوں وغیرہ کے استعمال میں رہتا ہوگا۔ لیکن بار بار ہچکولے کھانے کے باوجود امر دیپ کی وفادار جیپ نے کچھ ہی دیر میں ہمیں ایک خاصی مصروف سڑک پر پہنچا دیا۔ وہ سڑک بھی کچھ زیادہ ہموار اور کشادہ نہیں تھی۔ تاہم مجھے جیپ کی رفتار مناسب حد تک بڑھانے کا موقع مل گیا۔
تانگوں اور بیل گاڑیوں وغیرہ کی وجہ سے بار بار رفتار کم کرنے کے باوجود میں نے صرف دس منٹ میں اپنے اندازے کے مطابق چھ میل کا فاصلہ طے کر لیا اور پھر امر دیپ کے مشورے کے مطابق بائیں طرف جانے والی ایک نیم پختہ سڑک پر جیپ ڈال دی اور کچھ ہی دیر میں ہم باآسانی اسی راہ گزر پر پہنچ گئے۔ اب ہم واپسی کے رخ آگے بڑھ رہے تھے اور ہم حتی الامکان دور تک نظریں دوڑاتے ہوئے گھوڑے پر سوار الکھ سنگھ کی جھلک پانے کی کوشش کر رہے تھے۔
تبھی امر دیپ نے کہا۔ ’’یار بڈھے کی نظریں اب بھی بہت تیز ہیں۔ ہم سے پہلے پھپھڑ ہماری جیپ دیکھ لے گا۔ اس کے بعد چھپنے کی کوشش اسے مشکوک کر دے گی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پھرکیا کریں بھائی؟‘‘۔
امر دیپ نے قدرے اضطراب کے ساتھ کہا۔ ’’میرا خیال ہے ہمیں کسی مناسب جگہ جیپ چھپاکر انتظارکرنا چاہیے اور اس کے پہنچنے پر اس کا راستہ روکنا چاہیے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بہت مناسب تجویز ہے، لیکن حویلی سے روانگی کے بعد اب تک مجھے ایک ہی خدشہ ستارہا ہے۔ الکھ سنگھ اپنے گھر جانے کے لیے کوئی اور راستہ بھی تو اختیار کر سکتا ہے۔ کہیں ہم الوؤں کی طرح یہاں اس کا انتظار کرتے رہ جائیں اور وہ بلا روک ٹوک اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکا ہو!‘‘۔
امر دیپ نے کہا۔ ’’نہیں، اس کی تم فکر نہ کرو۔ میں اس پورے علاقے کو اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح پہچانتا ہوں۔ اگر وہ گھوڑے پر ہی روانہ ہوا ہے تو یہی سب سے بہتر راستہ ہے۔ دوسرا کوئی بھی راستہ اس کے لیے بہت لمبا اور دشوار گزار ہوگا۔ جہاں تک اندیشوں کو دل میں جگہ دینے کا تعلق ہے تو بہت کچھ سوچا جا سکتا ہے۔ جیسے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ سرے سے اپنے گھر کی طرف گیا ہی نہ ہو‘‘۔
میں نے اس کی تائید کی۔ ’’یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں تو صرف اس لیے تشویش محسوس کر رہا ہوں کہ ہمیں اب تک اس کی ایک جھلک بھی نہیں ملی ہے‘‘۔
امر دیپ نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔ ’’یہ سب فکریں چھوڑو اور جیپ درختوں کے اس جھنڈ کے درمیان لے جاکر روک دو۔ ہم یہیں رک کر پھپھڑ کا انتظار کریں گے۔ مجھے یقین ہے ہماری یہ ساری تگ و دو رائیگاں نہیں جائے گی‘‘۔
میں نے امر دیپ کے مشورے پر عمل کیا۔ نیم اور ٹاہلی کے درختوں کا وہ جھنڈ میرے اندازے سے زیادہ گنجان اور ہمارے مقصد کے لیے موزوں ثابت ہوا۔ جیپ کھڑی کر کے ہم دونوں اتر آئے اور درختوں کے درمیان سے الکھ دیپ کی متوقع آمد کے راستے پر نظریں جما دیں۔ اپنا اعصابی تناؤ دور کرنے کے لیے ہم آپس میں گپ شپ کر رہے تھے۔ ہم نے پہلے باہم یہ طے کیا تھا کہ الکھ سنگھ کو یہاں سے گزرنے دیا جائے گا اور اس کے بعد میں تعاقب کر کے اس کا راستہ روکوں گا۔ پھر میں نے کہا کہ یہ بکھیڑا مول لینے کی ضرورت نہیں۔ میں اسے یہیں روک لوں گا۔
امر دیپ نے تھوڑی بہت بحث کے بعد میری بات مان لی۔ ہمیں لگ بھگ نصف گھنٹے کا بیزار کن انتظار سہنا پڑا۔ ہمارے اندازے کے برعکس الکھ سنگھ کسی خاص جلدی میں نہیں تھا۔ بلکہ جب وہ واضح دکھائی دینے لگا تو مجھے لگا کہ وہ خوش گوار موسم میں گھڑ سواری سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
اس پر نظر پڑتے ہی امر دیپ نے خوشی اور فخر سے لب ریز لہجے میں کہا۔ ’’دیکھا؟ میں نے کہا تھا ناں کہ پھپھڑ اتنے مختصر راستے کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے جانے کا سوچ ہی نہیں سکتا!‘‘۔
میں نے اس کی فطانت کا اقرار کرتے ہوئے اسے حسبِ پروگرام جیپ کے پچھلے حصے میں چھپنے کو کہا اور خود بھی جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ میرے لیے یہ بات سب سے زیادہ اطمینان بخش تھی کہ اس راستے پر دونوں طرف دور دور تک کوئی ذی روح ہستی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میرے کان گھوڑے کے سموں کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ وہ کوئی پختہ راستہ تو تھا نہیں کہ فضا میں ٹاپوں کی آوازیں گونجتیں۔ البتہ پُرسکون فضا میں میرے کانوں نے کچی مٹی پر ہموار آہنگ سے پڑتے قدموں کی آواز سن لی۔ قدرے انتظار کے بعد میں نے آہستہ آہستہ جیپ ریورس کی اور پھر الکھ سنگھ کی جھلک ملتے ہی ایکسلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا۔
اپنے عین سامنے درختوں کے جھنڈ سے اچانک جیپ کو برآمد ہوتے دیکھ کر الکھ سنگھ کو گھوڑے کی لگامیں پوری قوت سے کھینچنا پڑیں۔ وہ مجھ سے بمشکل دس گز کے فاصلے پر گھوڑا روکنے میں کامیاب ہو سکا۔ میں اس کی بجو جیسی آنکھوں میں حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ اس نے مجھے پہچاننے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ تاہم اس مختصر وقفے میں اپنا ریوالور لہراتا میں اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔
میں نے ریوالور کی نال سے اشارہ کرتے ہوئے سخت لہجے میں حکم دیا۔ ’’بہت انتظار کرایا بزرگو! اب چپ چاپ نیچے اتر آؤ۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا‘‘۔
الکھ سنگھ نے حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’اوئے بہادر سنگھ توُ؟ میرا راستہ کیوں روکا؟ کیا چاہتے ہو؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’سوال جواب بعد میں ہو جائیںگے۔ پہلے گھوڑے سے اترو!‘‘۔
اس نے جواب میں غیظ و غضب سے بھرپور لہجے میں مجھے سرزنش کی۔ ’’اوئے نمک حرام، ہمارے خاندان کی مہمان نوازی اور خاطر تواضع کا یہ صلہ دے رہا ہے تُو؟ مجھے، یعنی امر دیپ اور بشن دیپ کے پھپھڑ کو لوٹنا چاہتا ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)