کے ایم سی کی اربوں روپے مالیت کی اراضی پر قائم تجاوزات بچالی گئیں

پہلی قسط
سید نبیل اختر
عدالت عظمیٰ کے احکامات کے باوجود کے ایم سی کے اینٹی انکروچمنٹ عملے نے شہر بھر میں کے ایم سی کی اراضیوں پر قائم تجاوزات گرانے کے لئے اب تک کوئی اقدامات نہیں کئے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ریگولرائز کی گئی دکانوں کو مسمار کر کے انسداد تجاوزات آپریشن ظاہر کیا جا رہا ہے۔ عدالتی احکامات کے برخلاف پہلے بھتہ وصولی اور ریٹ ڈبل کرنے کے لئے میئر کراچی نے جونیئر افسر کو سنیئر ڈائریکٹر تعینات کیا۔ بشیر صدیقی نے کمال مہارت سے تجاوزات آپریشن کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ اتحاد ٹائون، کاٹج انڈسٹری۔ لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، شیر شاہ، لیاری، ماڑی پور ٹرک اڈا، جہانگیر آباد، صدر، کیماڑی، ہجرت کالونی، شیریں جناح کالونی، نور محمد ولیج، بھٹہ ولیج اور شہر کے دیگر حصوں میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ نمائشی آپریشن کے باعث شہر میں 3 لاکھ سے زائد پتھاروں کی موجودگی محکمے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ آپریشن میں وہ تمام اراضی بچالی گئی، جو کے ایم سی کی اربوں روپے کی ملکیت ہیں۔ سب سے بڑی چائنا کٹنگ بلدیہ ٹائون میں کی گئی، جہاں 4 ہزار ایکڑ اراضی پر 14 ہزار سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ حالانکہ عدالت نے احکامات تو پتھارے، کے ایم سی اراضیاں، رفاہی پلاٹس اور پارکس واگزار کرانے کے دیئے تھے۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ شہر میں انسداد تجاوزات مہم کے لئے میئر کراچی وسیم اختر اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں لینڈ کمیٹی کے چیئرمین ارشد حسن نے کے ایم سی کے 18 گریڈ کے جونیئر افسر بشیر صدیقی کا انتخاب محض اس لئے کیا تھا کہ وہ شہر میں قائم پتھاروں اور دیگر تجاوزات پر انہیں بھتہ جمع کرکے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق دسمبر 2017ء میں انسداد تجاوزات کے سنیئر ڈائریکٹر کے انتخاب کے لئے میئر کراچی وسیم اختر کے پاس گریڈ 19 کے 7 افسران شارق الیاس، مظہر خان، شعیب وقار، اصغر درانی، جاوید رحیم، بلال منظر اور مختار حسین کے علاوہ گریڈ 20 کے دو سنیئر ڈائریکٹرز مسعود عالم اور ریحان خان کے نام بھی موجود تھے۔ جنہیں قانونی طور پر سنیئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ تعینات کیا جا سکتا تھا۔ ایک ماہ تک ان ناموں پر غور کرنے کے باوجود 5 جنوری 2018ء کو سینئر ڈائریکٹر ایچ آر محمود حسن نے حکم نامہ نمبر 068 /2018/ KMC /(HRM) dir No,Sr کے ذریعے بی پی ایس 18 کے ڈائریکٹر ایسٹ اینڈ ویسٹ بشیر صدیقی کو سنیئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کا چارج دے دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ تعیناتی کے وقت تمام اضلاع میں انسداد تجاوزات کے ڈائریکٹرز تعینات تھے، جن میں خالد ہاشمی، مسرت علی خان اور خود بشیر صدیقی شامل تھے۔ مسرت علی خان کے ذمہ ڈسٹرکٹ سینٹرل اور کورنگی، بشیر صدیقی ویسٹ اینڈ ایسٹ، جبکہ خالد ہاشمی سائوتھ اور ملیر میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔ کے ایم سی ذرائع نے بتایا کہ قائم مقام سنیئر ڈائریکٹر بننے کے بعد بشیر صدیقی نے اضلاع سے ڈائریکٹرز کو یہ کہہ کر ہٹادیا کہ ان کی تعیناتی کے باعث بھتے کی رقم کم ہو سکتی ہے۔ میئر نے چہیتے ڈائریکٹر کی اس اطلاع پر اینٹی انکروچمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں تعیناتی کے تمام اختیارات بشیر صدیقی کے سپرد کر دیئے، جن کے پاس اب ڈائریکٹرز سے لے کر ایریا انسپکٹرز کو ہٹانے، گھر بٹھانے یا کہیں بھی تعینات کرنے کے اختیارات تھے۔ اضلاع خالی ہوئے تو اینٹی انکروچمنٹ کے نام پر بھتہ وصولی کا عمل شروع ہوا، جس کے لئے گریڈ 11 سے 17 کے افسران کی تعیناتیاں کی گئیں۔ امت کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ نئے فارمولے کے تحت صدر ٹاؤن گریڈ 17 کے افسر افتخار کے سپرد کر دیا گیا۔ اسی طرح گلشن اقبال میں ریحان، گلستان جوہر میں کامران عباسی، جمشید ٹاؤن میں امین لاکھانی، شاہ فیصل میں خالد، کورنگی میں مسرت علی خان، لیاقت آباد میں سرور احمد خان، ناظم آباد میں سعید خان عرف بابو بھائی اور شاکر، نیو کراچی میں یونس خان، بفرزون میں سید عبدالمجید، کیماڑی میں جاوید اور لیاری میں گریڈ 11 کے ملازم عبدالاحد خان کو ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا۔ مذکورہ افسران نے کے ایم سی انسپکٹر زکو بھی بائی پاس کر کے ٹھیلوں، پتھاروں، غیر قانونی دکانوں سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا ڈراوا دے کر دھڑے سے بھتے وصول کئے اور شہر میں کہیں بھی پتھاروں وغیرہ کے خلاف کوئی کا روائی نہیں کی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں پیشی سے قبل محض ایمپریس مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا اور وہاں سے ٹھیلے پتھارے ہٹوائے جاتے رہے۔ تحقیقات کے مطابق کے ایم سی کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھتے کی کم وصولی پر میئر کراچی نے برہمی کا اظہار کیا تو بشیر صدیقی نے لسانی بنیادوں پر ان ریگولرائز دکانوں کے خلاف آپریشن کی تجویز پیش کی جو انہی کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پختونوں کو قائم کر کے دی گئی تھیں۔ میئر کراچی تجویز پر خوش ہوئے اور طے پایا کہ ایمپریس مارکیٹ سے متصل ان دکانوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا، جن کے خلاف وہ سابق صوبائی وزیر داخلہ رہتے ہوئے بھی کاروائی نہیں کر سکے تھے۔ اسی اجلاس میں بشیر صدیقی نے آپریشن کا دائرہ کار بڑھاکر شہر بھر میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے قائم کی گئی دیگر غیر قانونی دکانوں، مارکیٹوں کی دکانوں کے چھجوں اور بورڈز کے خلاف بھر پور آپریشن کی تجویز دی، جسے فوراًمنظور کر لیا گیا۔ اس طرح آپریشن کا رخ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا اور کے ایم سی کی اربوں روپے مالیت کی اراضی پر قائم تجاوزات بچالئے گئے۔
’’امت‘‘ کو کے ایم سی کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کو ضلع جنوبی تک محدود کرنے کی حکمت عملی پر کام شروع کیا گیا، جس میں صدر کی مارکیٹوں کے بعد برنس روڈ پر محدود پیمانے پر معتصبانہ کارروائی کرنا تھی۔ ذریعے کے بقول اسی اثنا میں ان تجاوزات کو جن میں تھیلے، پتھارے شامل ہیں، وقتی طور پر ہٹانے کی ہدایات دی گئیں اور جیسے جیسے آپریشن کا رخ دیگر مارکیٹوں کی طرف کیا گیا تو صدر میں دوبارہ تجاوزات قائم ہونا شروع ہوگئیں۔ صدرکے تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے بعد اب صدر کے مختلف حصوں میں تھیلے اور پتھاروں کی بھرمار ہے۔ انہیں ہٹانے کے لئے کے ایم سی اینٹی انکروچمنٹ کا کوئی عملہ موجود نہیں۔ جبکہ ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کی جانب سے ابتدا میں یہ بیان سامنے آیا تھا کہ جہاں جہاں آپریشن کیا جائے گا، وہاں دوبارہ تجاوزات کے مکمل خاتمے کے لئے کیمپ لگائے جائیں گے۔ تاکہ ان کیمپوں میں تعینات کے ایم سی اور ڈی ایم سی کا عملہ کسی کو تجاوزات قائم نہ کرنے دے۔ صدر میں آپریشن کے بعد تجاوزات کے مکمل خاتمے کے دعوے پر ’’امت‘‘ نے وہاں کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ پولیس اور کے ایم سی کی اجازت سے صدر، ریمبو سینٹر، فوڈ اسٹریٹ، اکبر روڈ، موبائل مارکیٹ، بوہری بازار، زینب مارکیٹ سمیت دیگر بازاروں میں ٹھیلے، پتھارے، کیبن لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ مذکورہ مقامات سے دن میں 50 سے400 روپے تک بھتہ وصولی کی جارہی ہے۔ دکانداروں نے بھی اپنی دکانوں کا سامان فٹ پاتھوں پت رکھ دیا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کا پیدل سفر کرنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ مارکیٹوں کے علاوہ بولٹن مارکیٹ سے بھی یومیہ 300 روپے فی پتھارا وصول کیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کچھ ماہ قبل بولٹن مارکیٹ میں پتھارے مافیا کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، جس کا رخ دکانداروں کی طرف موڑ دیا گیا۔ دکانداروں کے احتجاج کے بعد کے ایم سی عملہ واپس چلا گیا اور پتھاریداروں نے اگلے روز ہی مارکیٹ میں دوبارہ سے پتھارے لگانا شروع کر دیئے جو تاحال موجود ہیں۔ رنچھوڑ لائن، صرافہ بازار، جناح اسٹریٹ اور جمیلہ اسٹریٹ میں بھی غیر قانونی پتھارے سینکڑوں کی تعداد میں قائم ہیں۔ وہیں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ہیوی مشینری کے ذریعے تجاوزات کے خلاف بڑے آپریشن کے بعد مشاہدے میں آیا کہ ایمپریس مارکیٹ کے بالمقابل فوڈ اسٹریٹ پر ٹھیلے والوں نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ فوڈ اسٹریٹ کے اطراف قائم دکانداروں نے بھی اپنا سامان فٹ پاتھوں پر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ نعمان شاپنگ سینٹر کے عقب میں بھی دوبارہ سے تجاوزات قائم کر دی گئیں اور درجنوں کے حساب سے ٹھیلے اور پتھارے لگے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے ٹریفک جام ہونا معمول بن گیا ہے۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ مقامات سے صبح کے اوقات کے ایم سی کے بیٹرز یومیہ 100 روپے فی پتھارا وصولی کرتے ہیں۔ اس کے بعد شام کے وقت صدر اور پریڈی تھانے کے اہلکار ان مقامات سے یومیہ 100 سے 400 روپے تک وصولی کرکے جاتے ہیں۔ وہاں ریمبو سینٹر کے اطراف بھی فروٹ، جوتے چپل اور الیکٹرونک سامان فروخت کرنے والوں کے ٹھیلے لگنا شروع ہوگئے ہیں، جن سے کے ایم سی کا بیٹر ارشد وصولی کر رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پورے ہفتے جمع ہونے والی وصولی ڈپٹی ڈائریکٹر تک پہنچائی جارہی ہے۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ تجاوزات کے خلاف جاری نمائشی آپریشن کے باوجود شہر میں 3 لاکھ سے زائد پتھارے قائم ہیں، جو اینٹی انکروچمنٹ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اورنگی، لانڈھی، کورنگی، ملیر، لیاقت آباد، گارڈن، رنچھوڑ لائن، صدر، بلدیہ، کیماڑی، مواچ گوٹھ، سلطان آباد، شاہ فیصل، ماڑی پور، مشرف کالونی، بنارس، لسبیلہ، کالا پل، قیوم آباد، پرانا گولیمار، لائنز ایریا، بزرٹہ لائن، منظور کالونی، بلال کالونی، قائد آباد، رزاق آباد، گلشن حدید، چنیسر گوٹھ، محمود آباد، اعظم بستی، گرین ٹاؤن، ڈرگ روڈ، شیریں جناح کالونی، مچھر کالونی، نیو کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، مومن آباد، ہزاروی کالونی، فقیر کالونی، حنیف آباد، اورنگی ٹائون سیکٹر 4، سیکٹر 10 حسین آباد، فرید کالونی، محمد نگر، سیکٹر 11، زید ایم سی، نشان حیدر چوک، دائود چوک، صابری چوک، خواجہ غریب نواز، فیض عام کالونی، قائم خانی کالونی، رحیم شاہ کالونی، توحید محلہ، طوری بنگش، سیکٹر ساڑھے گیارہ، ڈی بلاک، آئی بلاک، جی بلاک، محمد خان کالونی، بلاک ایچ، غازی آباد، جرمن اسکول، منصور نگر، اجتماع گاہ، کرسچن کالونی، ایچ اسٹاپ، بابا ولایت شاہ کالونی، ریئس امروہی کالونی، یعقوب آباد، چشتی نگر، راجہ تنویر کالونی، سیکٹر 15، بنگلا بازار، مسلم کالونی، فادرکالونی، کسٹم کالونی، نیول کالونی، کیمپ کالونی، جاوید بحریہ سوسائٹی، یونس آباد، بدنی گوٹھ، بلوچ پاڑہ، سنگو پاڑہ، اتھورانیہ گوٹھ، موریا گوٹھ، محمد خان گوٹھ، کنور گبول گوٹھ اور پی سی ایس آئی آر سوسائٹی، حاجی رمضان گوٹھ، پلاری گبول گوٹھ، چھتا علی گبول گوٹھ، قاسم گبول گوٹھ، بلوچ خان اور حیدر بخش گبول گوٹھ، سچل گوٹھ، شر گوٹھ، سیتا نگر گوٹھ، بلاول شاہ نورانی گوٹھ، مارواہ اور رضوان سوسائٹی، جبکہ وارڈ 4 میں شرٹن، ایوب گوٹھ سمیت دیگر علاقوں میں کے ایم سی کے کرپٹ عملے کی سرپرستی میں پتھارے اور ٹھیلے لگائے گئے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جس حکمنامے پر کارروائی کی جارہی ہے، اس میں پتھاروں اور غیر قانونی قبضے کو ختم کرانے کا کہا گیا تھا۔ اس حکم نامے میں کہیں بھی موجود نہ تھا کہ کے ایم سی کا عملہ ٹیکس ادا کرنے والے دکانداروں اور تاجروں کو نشانہ بنایا جائے۔ کے ایم سی اینٹی انکروچمنٹ کی ذمہ داریوں میں ٹھیلے پتھاروں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔ تاہم ان کے خلاف اب تک کہیں کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔
’’امت‘‘ کو کے ایم سی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اینٹی انکروچمنٹ کے ذرائع نے بتایا کہ عدالتی احکامات کے مطابق ٹھیلوں اور پتھاروں کے خلاف آپریشن کے بعد کے ایم سی کو اپنی اربوں روپے مالیت کی اراضی واگزار کروانا تھی، جہاں متحدہ دہشت گردوں نے ہزاروں پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کی تھی۔ ذرائع کے بقول شہر میں کے ایم سی کی سب سے بڑی اراضی بلدیہ ٹاؤن میں ہے، جہاں 4 ہزار ایکڑ اراضی پر 14 ہزار سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ ’’امت‘‘ نے مذکورہ علاقے کی معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ بلدیہ ٹاؤن میں چائنا کٹنگ کا آغاز شفٹنگ پلاٹ کے نام پر کیا گیا، جس میں ابتدا میں 100 پلاٹوں کے لئے مختلف پاکٹس میں سرکاری اراضی ٹھکانے لگائی گئیں۔ بعد ازاں منصوبے کو توسیع دیتے ہوئے 62 سے زائد ایس ٹی پلاٹوں کے لئے باقاعدہ ٹاؤن کونسل سے قرارداد منظور کرائی گئی۔ مذکورہ قرارداد کے ساتھ بلدیہ ٹاؤن میں واقع ان ایس ٹی پلاٹوں کی تفصیلات بھی منسلک کی گئیں، جنہیں غیر قانونی طور پر اضافی اراضی ظاہر کرتے ہوئے ان پر پہلے قبضہ کیا گیا اور اس کے بعد ان پر چائنا کٹنگ کر کے پلاٹ کاٹے گئے۔ ان میں سیکٹر 4 اے میں 0.5 ایکڑ اراضی پر واقع ایس ٹی 15، جو پارک کی تعمیر کیلئے مختص تھی، اس پر چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 18 مکانات تعمیر کئے گئے۔ سیکٹر 4 اے میں 0.75 ایکڑ پر نالے کے لئے مختص اراضی ایس ٹی 13 پر چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 27 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 4 اے میں موجود ایس ٹی 10 جو ایک ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، پر چائنا کٹنگ کرکے 37 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 4 اے میں ایس ٹی 17 جو 0.65 ایکڑ پر مشتمل ہے، پر 22 پلاٹ کاٹے گئے۔ یہ اراضی کلینک کے لئے مختص تھی۔ اسی طرح سیکٹر 4 اے میں ہی واقع ایس ٹی 16 جو 0.6 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے اور پبلک بلڈنگ کیلئے مختص تھی، یہاں غیر قانونی پلاٹنگ کرتے ہوئے 22 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 4 اے میں پارک کیلئے مختص ایس ٹی 18 پر قبضہ کر کے 18 پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ اراضی 0.5 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے ۔ سیکٹر 4 اے میں 0.75 ایکڑ پر مشتمل ایس ٹی 14 جو پبلک بلڈنگ کیلئے مختص تھی،
اس پر 50 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 4 ای میں پارک و پبلک بلڈنگ کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ پر 80 سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ ایس ٹی پلاٹ 3 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح سیکٹر 4 ای میں ہی واقع ایس ٹی نمبر 3 جو پلے گراؤنڈ کے لئے مختص تھا، پر قبضہ کر کے 66 پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ اراضی 2 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ سیکٹر 4 ایچ میں موجود ایس ٹی 5 جو ماسٹر پلان کے مطابق پارک کی تعمیر کے لئے مختص کیا گیا تھا، اس پر چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 80 پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ اراضی 3 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔
اسی طرح سیکٹر 12 اے میں مارکیٹ کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 7 پر قبضہ کرکے 44 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 اے میں نالے کے لئے مختص کی گئی اراضی پر بھی چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 20 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 اے میں ہی موجود ایک اور مقام جو کہ نالے کی تعمیر کیلئے رکھا گیا تھا، یہاں بھی چائنا کٹنگ کرکے 46 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 اے میں موجود خالی اراضی پر چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 40 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ مذکورہ سیکٹر میں ہی موجود ایک اور خالی اراضی پر چائنا کٹنگ کی گئی اور یہاں 20 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 بی میں نالہ اور اس کے ساتھ دکانوں کی تعمیر کے لئے مختص اراضی پر 10 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ 12 بی میں ہی موجود ایس ٹی نمبر 6 جو ماسٹر پلان کے مطابق اسکول کی تعمیر کے لئے مختص کیا گیا تھا، یہاں بھی قبضہ کرتے ہوئے 18 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 ڈی میں ایس ٹی نمبر 2 جو پارک کے قیام کے لئے مختص تھا، اس پر 9 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح ایس ٹی 5 جو سیکٹر 12 ڈی میں ہی واقع ہے اور ماسٹر پلان کے مطابق اسکول کی تعمیر کیلئے مختص کیا گیا تھا، پر بھی قبضہ کرتے ہوئے 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 ڈی میں نالہ کی لئے چھوڑی گئی اراضی پر بھی قبضہ کرتے ہوئے اس پر 9 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 سی / II میں ماسٹر پلان کے مطابق پاپولیشن اینڈ وومن کیئر سینٹر کی تعمیر کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 2 پر قبضہ کیا گیا اور یہاں 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ میٹرنٹی ہوم کے قیام کے لئے سیکٹر 12 سی / II میں مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 3 پر قبضہ کرتے ہوئے یہاں بھی 26 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 سی / II میں جنرل اسپتال کے لئے مختص ایس ٹی نمبر 4 پر قبضہ کیا گیا، جہاں 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ سیکٹر 12 سی / II میں ہی موجود ایس ٹی پلاٹ نمبر 6 جو میڈیکل شاپس کے لئے مختص تھا، اس پر قبضہ کرتے ہوئے 8 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 12 سی میں دکانوں کے لئے مختص اراضی پر قبضہ کرتے ہوئے 14 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 12 سی میں ہی موجود ایک اور اراضی جو نالہ اور ساتھ دکانوں کے لئے مختص تھی، پر قبضہ کرکے 22 پلاٹ کاٹے گئے۔ ماسٹر پلان کے مطابق پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کے قیام کے لئے سیکٹر 12 سی میں مختص کئے گئے ایس ٹی 11 پر بھی قبضہ کیا گیا اور یہاں چائنا کٹنگ کرتے ہوئے 11 پلاٹ کاٹے گئے۔
’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والی اصل دستاویزات (ماسٹر پلان) کے مطابق بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 میں واقع بلاک اے میں رہائشی پلاٹوں کی تعداد 160، کمرشل پلاٹوں کی تعداد 46 اور ایمیونٹی پلاٹوں کی تعداد 14 ہے۔ بلاک بی میں رہائشی پلاٹ 778 اور 91 کمرشل پلاٹ موجود ہیں۔ بلاک سی میں رہائشی پلاٹوں کی تعداد 808 ہے، جبکہ یہاں موجود کمرشل پلاٹ 33 اور ایمیونٹی پلاٹ 6 ہیں۔ بلاک ڈی میں موجود رہائشی پلاٹوں کی تعداد 898، کمرشل پلاٹ 31 اور مذکورہ بلاک میں ایمیونٹی پلاٹوں کی تعداد 4 ہے۔ بلاک ای میں موجود رہائشی پلاٹوں کی تعداد 400، کمرشل پلاٹوں کی تعداد 60 اور 8 ایمیونٹی پلاٹ موجود ہیں۔ بلاک ایف میں موجود رہائشی پلاٹوں کی تعداد 666، کمرشل پلاٹوں کی تعداد 60 اور 3 ایمیونٹی پلاٹ ہیں۔ اسی طرح بلاک جی میں 320 رہائشی پلاٹ اور 30 کمرشل پلاٹ ہیں۔ مذکورہ بلاک میں ایمیونٹی پلاٹوں کی تعداد 4 ہے۔ بلاک ایچ میں رہائشی پلاٹوں کی تعداد 318، کمرشل پلاٹوں کی تعداد 5 اور 6 ایمیونٹی پلاٹ ہیں۔ جبکہ بلاک آئی میں 412 رہائشی پلاٹ اور 5 ایمیونٹی پلاٹ ہیں۔
’’امت‘‘ نے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر 4 میں چائنا کٹنگ کے حوالے سے تحقیقات کیں تو انکشاف ہوا کہ متحدہ دہشت گردوں نے علاقے کے لئے مختص کوئی ایک خالی اراضی بھی نہیں چھوڑی۔ مشاہدے میں آیا کہ 2007ء اور 2017ء کے دوران 10 سے زائد سیکٹرز پر چائنا کٹنگ کی گئی۔ ماسٹر پلان کے مطابق اسپتالوں، پارکوں اور دیگر سرکاری اراضی پر کسی قسم کی تعمیرات موجود نہیں تھیں۔ اس کے برعکس 10 سے زائد مقامات پر چائنا کٹنگ کر کے ہزاروں پلاٹ کاٹے گئے۔ پوسٹ آفس، پارکس، اسپتال اور کمیونٹی سینٹر کی اراضی کو رہائشی مکانات میں تبدیل کر دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 ای میں واقع مسجد صدیق اکبر کے عقب کی اراضی پر چائنا کٹنگ کی گئی۔ مذکورہ اراضی ماسٹر پلان کے مطابق پلے گراؤنڈ کے لئے مختص تھی، جو نقشے میں ایس ٹی 3 کے نام سے ظاہر کی گئی تھی۔ اس کا رقبہ 2 ایکڑ سے زائد پر مشتمل تھا۔ سابق ٹاؤن ناظم کامران اختر کے دور میں غیر قانونی طور پر 66 پلاٹوں کی منظوری حاصل کی گئی اور اب وہاں 150 سے زائد غیر قانو نی مکانات تعمیر ہیں۔ جنہیں متحدہ دہشت گردوں نے شہریوں کو جعلی دستاویزات بنا کر فروخت کیا۔ تحقیقات پر پتا چلا کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 اے میں چائنا کٹنگ پلاٹوں پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جاچکی ہیں۔ مذکورہ اراضی ماسٹر پلان کے مطابق اسپتال کی تعمیر کیلئے مختص کی گئی تھی، جسے ایس ٹی نمبر 13 کہا گیا۔ اراضی کا رقبہ 0.75 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں غیر قانونی پلاٹ کاٹ کر 2 اور 3 منزلہ عمارتیں تعمیر کر کے فروخت کی گئیں۔ مشاہدے میں آیا کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 اے میں چائنا کٹنگ کر کے350 سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ اراضی ایس ٹی نمبر 12 اورایس ٹی نمبر 13 کا حصہ ہے اور جس کا رقبہ 2 ایکڑ سے زائد بتایا جاتا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 ایف کے اصل ماسٹر پلان میں موجود سرکاری اراضی پارک کے لئے مختص تھی۔ لیکن وہاں متحدہ رہنماؤں کے شادی ہالز تعمیر کر دیئے گئے۔ مذکورہ اراضی ایس ٹی ون کے نام سے ماسٹر پلان کا حصہ ہے۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ بلدیہ سیکٹر 4 ای میں نالے کے ساتھ پلے گراؤنڈ کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 3 اور کمیونٹی سینٹر کے لئے مختص اراضی پر بھی چائنا کٹنگ کی گئی۔ اسی طرح پارک کیلئے مختص ایس ٹی نمبر 5 کے پلاٹ کے ایک حصہ پر قبضہ کر کے یہاں اینٹوں کا تھلہ قائم کیا گیا۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ سیکٹر 4 اے میں واقع ایس ٹی نمبر 56 اور ایس ٹی نمبر 57 پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ یہ اراضی 2 ایکڑ سے زائد رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہاں بلدیہ ٹاؤن کے ماسٹر پلان کے مطابق پلے گراؤنڈ اور پرائمری اسکول تعمیر کیا جانا تھا۔ لیکن مذکورہ اراضی پر قبضہ کرکے پلاٹ کاٹے گئے اور اسے من مانے ریٹوں پر فروخت کیا گیا۔ اسی طرح بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 اے میں کے ایم سی کے افسر عابد نے متحدہ کے سابق ٹاؤن ناظم کامران اختر سے ملی بھگت کر کے 24 پلاٹ کاٹے۔ یہ پلاٹ اونے پونے داموں متحدہ کارکنوں کو فروخت کیے گئے، جس سے سلیم اور عابد نے ہی تعمیرات کے بعد اسکول کرائے پر لے لیا اور ان دنوں یہاں گریس فل کے نام سے اسکول چلایا جارہا ہے۔ مذکورہ اراضی پر اسکول کی تعمیرات ہی اس مقصد کے لئے کی گئی تھی کہ اگر کبھی تجاوزات شمار کر کے آپریشن شروع کیا جائے تو اسکول کی عمارت ہونے کی وجہ سے نہ صرف اسکول کی اراضی بچائی جاسکے، بلکہ اس کی آڑ میں آس پاس موجود دیگر پلاٹ بھی محفوظ رہ سکیں۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ سیکٹر 4 ای میں واقع 2 ایکڑ سے زائد رقبے پر کی جانے والی چائنا کٹنگ پر رہائشی مکانات اور دکانیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ مذکورہ اراضی بلدیہ ٹاؤن کے ماسٹر پلان کے مطابق پارک اور پلے گراؤنڈ کے لئے مختص تھی۔ یہاں کاٹے گئے پلاٹ کی فروخت ڈیڑھ لاکھ روپے سے شروع کی گئی تھی۔ وہیں بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 اے میں موجود ایس ٹی نمبر 12، ایس ٹی نمبر 14 اور جامع مسجد فاروق اعظم کے ساتھ پارک کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ 2، پبلک بلڈنگ کے لئے مختص ایس ٹی نمبر 8، ایس ٹی نمبر 6 اور اس کے ساتھ دیگر اراضی پر متحدہ رہنماؤں نے قبضہ کر کے چائنہ کٹنگ کی اور فی پلاٹ 5 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے فروخت کئے۔ دوسری جانب بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 ایچ کے ماسٹر پلان میں پرائمری اسکول کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 4، پلے گراؤنڈ کی تعمیر کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 2 اور 3، پبلگ بلڈنگ کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ 1 اور پارک کے لئے مختص اراضی ایس ٹی 5 پربھی چائنہ کٹنگ کی گئی۔ سیکٹر 4 ڈی میں قبضہ کی گئی 2 ہزار گز کی اراضی پر بھی غیر قانونی طور پر پٹرول پمپ قائم کیا گیا، جہاں بعد میں پی ایس او سے خدمات حاصل کی گئیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ سیکٹر 4 سی میں احمد رضا مسجد کے قریب واقع ایس ٹی نمبر 14 میں بھی 80 گز کے 15 پلاٹ کاٹے گئے اور پھر انہیں سستے داموں فروخت کر دیا گیا۔ سیکٹر 4 اے میں واقع مین روڈ پر کے الیکٹرک کی جانب سے چائنا کٹنگ پلاٹوں کے لئے پی ایم ٹی بھی نصب کی گئی، جس کے ذریعے چائنا کٹنگ پلاٹوں کو بجلی کی فراہمی جا رہی ہے۔ اسی طرح بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 9 ایف ون میں موجود گرین بیلٹ کی اراضی پر بھی قبضہ کرتے ہوئے فی پلاٹ لاکھوں روپے میں فروخت کیا گیا۔
کے ایم سی کے ایک ڈائریکٹر کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر نے بلدیہ ٹاؤن کی اراضی واگزار کرانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی، جو کے ایم سی کی ملکیت ہیں۔ اس اراضی کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔ لیکن متحدہ ووٹرز کو نوازے جانے کا عمل جاری رکھا گیا ہے، تاکہ حالات ٹھیک ہونے پر انہیں یہ جتایا جاسکے کہ عدالتی احکامات کے باوجود کبھی اس جگہ کا رخ نہیں کیا گیا۔ متحدہ نے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لئے یہاں ہزاروں خاندانوں کو آباد کرایا تھا۔ ٭

Comments (0)
Add Comment