چینی قونصلیٹ پر حملے میں زخمی نجی گارڈ لاوارث چھوڑ دیا گیا

اقبال اعوان
کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران شدید زخمی ہونے والے نجی سیکورٹی گارڈ محمد جمن کو حکومت نے لاوارث چھوڑ دیا۔ جناح اسپتال میں زیر علاج پرائیویٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ شاید اس کا زندہ بچ جانا ہی اس کی بہادری کی داستان بننے میں حائل ہوا ہے۔ اس نے شکوا کیا کہ حکومتی ادارے نجی سیکورٹی گارڈز کو فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اہمیت نہیں دیتے۔ محمد جمن نے بتایا کہ چینی قونصل خانے کے ذمہ دار اسپتال آئے تھے اور اسے شاباش دے کر گئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ صحت یاب ہونے پر بھی اب وہ دوبارہ نوکری کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ 12 ہزار ماہانہ تنخواہ اس کا کل اثاثہ تھی، جس سے وہ اپنی 110 سالہ والدہ کی کفالت بھی کرتا تھا۔
واضع رہے کہ کراچی میں تیئیس نومبر کی صبح کلفٹن بلاک 4 میں واقع چینی قونصل خانے پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار اور ویزا لینے آنے والے دو باپ بیٹا شہید ہوئے اور تینوں دہشت گرد مارے گئے تھے۔ اس واقعے میں قونصل خانے کے قریب چیک پوسٹ پر جہاں دو پولیس اہلکار اے ایس آئی اشرف راؤ اور سپاہی عامر شہید ہوئے، وہیں ایک نجی سیکورٹی کمپنی کے 56 سالہ گارڈ محمد جمن گرنیڈ حملے میں شدید زخمی ہوا، جو اب جناح اسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس کی دونوں ٹانگوں، سینے اور مثانے میں گرنیڈ کے ٹکڑے لگے ہیں۔ زخمی سیکورٹی گارڈ کا کہنا تھا کہ شاید اس کا زندہ رہنا اور نجی گارڈ ہونا اس کی بہادری کی داستان بننے میں حائل ہو رہا ہے۔ میڈیا میں خبریں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا دہشت گردوں سے مقابلے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ سندھ کے شہر مورو کے علاقے تعلقہ محمد رحیم گوٹھ سے تعلق رکھنے والے 56 سالہ محمد جمن کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ سات سال سے چینی قونصل خانے میں تعینات ہے۔ اس کی ڈیوٹی صبح سات بجے سے شام سات بجے تک ہوتی تھی اور کوئی چھٹی نہیں تھی۔ اس نے بتایا کہ قونصل خانے کے مرکزی گیٹ کے قریب گلی میں خصوصی طور پر بیریئر موجود ہے، جہاں دو پولیس اہلکار ہوتے تھے۔ جبکہ وہ اپنے پاس اسلحہ نہیں رکھتا تھا، بلکہ میٹل ڈٹیکٹر سے آنے جانے والوں کو چیک کرتا تھا۔ واقعے والی صبح سات بجے وہ ڈیوٹی پر آیا اور رات والے گارڈ کو واپس بھیج دیا اور اس کے بعد اب سے پہلے بیریئر کو چیک کیا۔ لگ بھگ سوا آٹھ بجے دو افراد جن کی عمریں 25 سے 35 سال تھیں، آئے اور کہا کہ ویزہ لگوانا ہے۔ اس نے منع کر دیا کہ ابھی قونصل خانہ بند ہے اور 9 بجے کھلے گا، اس کے بعد آؤ۔ 9 بجے ویزا سیکشن میں کام شروع ہوا۔ سوا 9 بجے کے قریب بیریئر کے قریب ایک کار آکر رکی۔ اس میں ایک آدمی بیٹھا رہا اور تین اتر گئے۔ چاروں افراد نے آپس میں بات چیت کی اور ان میں سے تین آگے بڑھے تو اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ ہے۔ خطرہ پھانپ کر اس نے اے ایس آئی اشرف راؤ اور سپاہی عامر کو آگاہ کیا، جنہوں نے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے فائرنگ کی۔ جواب میں حملہ آوروں نے دو دستی بم اچھالے اور فائرنگ شروع کر دی۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک حملہ آور مارا گیا۔ دیگر دونوں حملہ آور شدید فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ اس وقت پولیس والوں نے چیخ کر کہا کہ، چچا جمن بیریئر نہیں کھولنے دینا۔ یہ گاڑی اندر لانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس (محمد جمن) نے بند بیریئر کی وائر تھامے رکھی۔ اسی دوران حملے آوروں کی فائرنگ سے دونوں پولیس والے شہید ہوگئے اور اسے بھی گرنیڈ کے ٹکڑے لگے، جس کے بعد وہ بے ہوش ہوگیا۔
محمد جمن کا کہنا تھا کہ وہ روزگار کی تلاش میں بارہ سال پہلے کراچی آیا تھا۔ گاؤں میں اس کی 110 سالہ والدہ رہتی ہیں۔ والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ محمد جمن کی بیوی 16 سال قبل فوت ہو چکی ہے اور اس کے چار بچے ہیں۔ 3 بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ ایک بیٹا جوان ہے، تاہم اس کی دائیں ٹانگ ایک حادثے میں کٹ گئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ڈیفنس صباء کمرشل میں واقع گاؤں کے بندوں کے ساتھ فلیٹ میں رہتا ہے۔ 12 ہزار تنخواہ ہے، جس میں سے 8 ہزار روپے والدہ کو بھیجتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب صحت یاب ہونے کے بعد وہ نوکری کے قابل نہیں رہے گا۔ محمد جمن نے بتایا کہ اس کے لئے اب تک کسی معاوضے یا انعام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ صرف گلدستے بھجوادیئے گئے۔ بہادری کا مظاہرہ کرنے والے پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کو بھی حکومتی سطح پر سراہا جانا ضروری ہے۔

Comments (0)
Add Comment