امت رپورٹ
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بغیر ہوم ورک کے پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ انکار پر پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی بھارتی ہم منصب کو دعوت نامہ بھیجا تھا۔ تاہم سشما سوراج نے ذاتی مصروفیات کا بہانہ بنا کر یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ وزارت خارجہ نے دراصل بغیر ہوم ورک کے عجلت میں یہ دعوت نامہ بھیجا تھا۔ اس طرح کے دعوت ناموں کے لئے اصولی طور پر پہلے متعلقہ سفارتی چینلز کے ذریعے مدعو کئے جانے والی غیر ملکی شخصیات کی مصروفیات کا شیڈول اور ارادے معلوم کئے جاتے ہیں۔ جب آمد کنفرم ہو جاتی ہے تو پھر ہی باقاعدہ دعوت نامہ بھیجا جاتا ہے۔ تاکہ انکار کی صورت میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاہم وزارت خارجہ کی عجلت اور بے تابی کے سبب عالمی سطح پر پاکستان کو Embarrassment ہوئی۔ اب سشما سوراج کی جگہ دیگر دو بھارتی وزرا کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجا کر اس سبکی کا تاثر زائل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی پاکستانی دعوت پر تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی۔ یہ دوسرا بڑا سفارتی دھچکا ہے کہ موصوف نے تو نہ آنے کے لئے کوئی بہانہ بھی نہیں تراشا۔
اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ذرائع نے بتایا کہ وزیر خارجہ نے عسکری قیادت سے مشاورت کے بغیر سشما سوراج کو دعوت نامہ بھیجا تھا۔ اور اس کے نتائج پر اسٹیبلشمنٹ میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کیونکہ پچھلی حکومت کو پورے پانچ برس تک مودی کا یار ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا اور خود موجودہ حکومت بھارت کی خوشامد میں انتہائی نچلی سطح پر چلی گئی ہے۔ ان ذرائع کے بقول ایک ایسے وقت میں جب چینی قونصل خانے پر حملے اور اورکزئی ایجنسی میں دھماکے کے پیچھے ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مل چکے ہیں تو بھارت سے امن کی باتیں کرنا پاکستان کے نمبر ون دشمن کی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ذرائع کے مطابق سیکورٹی اداروں کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ چینی قونصل خانے پر حملہ ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ کی مشترکہ کارروائی تھی۔ حملے کے افغان پاسپورٹ ہولڈر ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو کو دہلی اور کابل حکومتیں براہ راست سپورٹ کر رہی ہیں۔ اسی طرح اورکزئی میں ہونے والے دھماکے میں 30 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس کارروائی میں بھی ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں ہونے والے دہشت گردی کے ان تازہ واقعات کے علاوہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت نے بلا اشتعال گولہ باری کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی مظالم تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ ایسے میں بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھا کر پاکستان میں ’’را‘‘ کی دہشت گردی کے بیانیہ کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ سکھ یاتریوں کے لئے کرتار پور سرحد کو ویزہ فری کرنے کی تجویز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی۔ یہ ایک اسٹرٹیجک آفر تھی اور اس کے نتائج پاکستان کے حق میں نکلیں گے۔ اسی پیشکش پر مجبور ہو کر بھارت کو بھی متذکرہ سرحد کھولنے پر آمادہ ہونا پڑا۔ تاہم اس کے لئے حکومت کی جانب سے خوشامدانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی، جو بھارتی وزرا کو مدعو کر کے اپنائی گئی اور اس میں سیٹ بیک ہوا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزرا کو مدعو کر کے امن کی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کا معاملہ عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت تھی۔ تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکتا کہ ایک طرف پاکستان کرتار پور کوریڈور کھولنے جیسے امن اقدامات کر رہا ہے اور دوسری جانب بھارت اس کا جواب دہشت گردی کرا کے دے رہا ہے۔ دہشت گردی کے تازہ واقعات کے حوالے سے ذرائع نے عندیہ دیا کہ پاکستان میں کلبھوشن کا نیٹ ورک دوبارہ بحال ہو رہا ہے۔ جسے کلبھوشن سمیت اس کے 400 سے زائد ساتھیوں کی گرفتاریوں سے غیر فعال بنا دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے ماضی کے حکمرانوں کو طعنہ دینے والے وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے بھی کلبھوشن یادو کا نام نہیں نکل رہا۔ بلکہ بھارت سے امن کی یکطرفہ کوششوں پر مبنی خوشامدانہ پالیسی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نون لیگی دور حکومت میں جندل کی بازگشت تھی تو اب انیل مسرت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں، بلکہ اپنے ابتدائی 100 دنوں میں حکومت کو ہر فرنٹ پر ناکامی کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں ’’نئے پاکستان‘‘ کو آزمانے کے خواہش مندوں میں اب بتدریج مایوسی بڑھنے لگی ہے۔ گیٹ تو گیدر ہونے والی ملاقاتوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ 100 دنوں میں ملک کی سمت درست راستے پر ڈالنے کی دعویدار حکومت کو کسی فرنٹ پر بریک تھرو نہیں مل سکا۔ واضح رہے کہ دو روز بعد 28 نومبر کو حکومت کے 100 روز پورے ہو رہے ہیں۔ ناکامیوں کے حوالے سے جو اہم شعبے ڈسکس کئے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک وفاق اور صوبوں میں ایڈمنسٹریشن کا معاملہ، دوئم میرٹ پر تقرریاں، سوئم پولیس ریفارمز، چہارم معیشت اور پنجم امن و امان کی صورت حال ہے۔ ذرائع کے بقول بدقسمتی سے وفاق اور ان صوبوں میں جہاں پی ٹی آئی اقتدار میں ہے، ایڈمنسٹریشن نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ میرٹ پر تقرریوں کے بجائے زیادہ تر قریبی دوستوں اور متنازعہ شخصیات کو نوازا گیا۔ پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے بجائے مزید سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ مریم نواز کے میڈیا سیل پر کڑی تنقید کی جاتی تھی۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب خاتون اول بشریٰ بی بی کو ایک پرنسپل سیکریٹری دے دیا گیا ہے، جس کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب کو براہ راست پیغامات بھیج کر کام کرائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب احتساب مکمل طور پر غیر موثر ہو گیا ہے اور یکطرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ جس کا زیادہ تر نشانہ مخالف سیاسی پارٹی نون لیگ اور اس کے دور کی بیورو کریسی ہے۔ سی پیک کے معاملے پر اگر عسکری قیادت چین کو ڈھارس نہ دیتی تو یہ معاملہ بھی دوسری طرف جانے لگا تھا۔ ذرائع کے بقول یہ وہ موٹے موٹے معاملات ہیں، جس میں اپنے سو روزہ پلان کے تحت حکومت کامیابی حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ موجودہ حکومت کو یہ ایڈوانٹیج دیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی پہلی بار اقتدار میں آئی ہے، لہٰذا ابھی اس نے سیکھنا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے عرصے میں سیکھے گی؟ ذرائع کے مطابق حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے فری ہینڈ اور مکمل سپورٹ ملی ہوئی ہے کہ اس کی خواہش تھی کہ پاکستان کو بدلنا ہے اور اس کی دائمی بیماریوں کو دور کرنا ہے، لہٰذا یہ موقع دے دیا گیا۔ عام حالات میں پی ٹی آئی کو کسی صورت اقتدار نہیں مل سکتا تھا۔ تاہم یہ موقع دے کر اسے کھلی چھوٹ دی گئی کہ اب اپنے دعوئوں کے مطابق حکومت چلائے اور مطلوبہ نتائج دے کر ثابت کر دے کہ وہ سب سے بہتر ہے۔ ذرائع کے بقول صرف پی ٹی آئی ہی نہیں، ہر حکومت کو اپنے اقتدار کے ابتدائی سو دن میں پیش رفت دکھانی ہوتی ہے۔ اس سو روزہ کارکردگی پر ہی وہ تاثر قائم ہوتا ہے، جس سے کوئی بھی حکومت اپنے پانچ سالہ اقتدار کے کامیاب منصوبوں کی بنیاد ڈالتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس موجودہ حکومت اپنے سو دن کے پلان میں مطلوبہ رزلٹ دینے سے قاصر رہی ہے۔ ذرائع کے بقول اب آزمانے والے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ آزمائشی پیریڈ ایک برس سے زیادہ ہونے کا امکان نہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے پالیسی ساز یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ تجربے کے نتائج دیکھنے میں ریاست ہی بیٹھ جائے۔ اب یہ پی ٹی آئی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ایک برس کے آزمائشی پیریڈ میں کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔