ابوحسان مہیب بن سلیمؒ بیان کرتے ہیں:
میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ سے سنا، فرما رہے تھے کہ میں ایک مرتبہ نیشاپور شہر میں بیمار ہو گیا۔ بیماری ہلکی تھی اور یہ رمضان کے مہینے کی بات ہے۔ میرے شیخ امام اسحاق بن راہویہؒ اپنے ساتھیوں سمیت میری عیادت کیلئے تشریف لائے۔
انہوں نے پوچھا: اے ابو عبد اللہ! کیا روزہ افطار کرلیا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! افطار کرلیا ہے۔ تو اسحاق بن راہویہؒ نے پوچھا کہ اتنی جلدی معمولی بیماری سے آپ نے روزہ افطار کرلیا؟
میں نے اسحاق بن راہویہؒ کو بتایا: (یعنی انہی کی سند سے حدیث سنائی) ’’میں نے اسحاق بن راہویہؒ کو عطاءؒ کا قول بتایا کہ ابن جریجؒ نے عطاءؒ سے سوال کیا کہ کون سی بیماری سے روزہ چھوڑوں؟ تو عطاءؒ نے جواب دیا کہ کسی قسم کی بیماری ہو۔ جیسے حق تعالیٰ کے فرمان میں ہے: ’’جو تم میں سے بیمار ہو وہ دوسرے ایام میں قضا کرے‘‘۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ عطائؒ کا یہ قول جو قرآنی آیت سے استنباط تھا، اسحاق بن راہویہؒ کے پاس نہ تھا کہ بیماری کم ہو زیادہ، روزہ چھوڑا جا سکتا ہے۔
امام بخاریؒ کے حافظہ کے متعلق حافظ ابن حجرؒ ان کا اپنا قول نقل کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے فرمایا: ’’میں نے ایک دن حضرت انسؓ کے شاگردوں پر نگاہ ڈالی تو تھوڑے سے وقت میں تین سو آدمیوں کے نام میرے سامنے آگئے اور میں جس استاد کے پاس آیا تو میں نے اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا فائدہ اس نے مجھ سے اٹھایا۔‘‘
وراق بخاریؒ کا بیان ہے کہ میں نے امام بخاریؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میری دانست میں جتنی ضرورت کی چیزیں ہیں تمام کے تمام کا حل کتاب و سنت میں موجود ہے۔ وراق بخاریؒ فرماتے ہیں: میں نے پوچھا: ’’کیا اس کی معرفت حاصل کرنا ممکن ہے؟‘‘ تو آپؒ نے جواب دیا: ’’جی ہاں! ممکن ہے۔‘‘
اس سے امام بخاریؒ کے استحضار مسائل اور وسیع النظری پر روشنی پڑتی ہے۔
حافظ احمد بن حمدونؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے امام بخاریؒ کو ایک جنازے میں دیکھا اور محمد بن یحییٰ ذہلیؒ ان سے اسماء اور علل کے متعلق سوال کر رہے تھے۔ امام بخاریؒ تیر کی طرح تیزی سے سوالات کا جواب دے رہے تھے، جیسے وہ سورۃ الاخلاص پڑھ رہے ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجرؒ بتمام سند حافظ ابوحامد اعمشؒ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن نیشاپور میں محمد بن اسماعیل بخاریؒ کے پاس موجود تھے کہ امام مسلم بن حجاجؒ تشریف لائے۔ امام مسلمؒ نے ایک حدیث کی عبید اللہ بن عمرؒ سے اوپر والی سند بیان کردی اور نیچے والی سند کے متعلق امام بخاریؒ سے سوال کیا تو امام بخاریؒ نے فوراً نیچے والی سند اس طرح سنا دی:
’’حدثنا ابن ابی اویس حدثنی اخی عن سلیمان بن بلال عن عبید اللہ فذکر الحدیث بتمامہ‘‘
اتنے میں ایک دوسرے شخص نے اسی مجلس میں ایک حدیث پڑھ دی۔
امام مسلمؒ امام بخاریؒ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے: ’’دنیا میں اس سے بہتر حدیث ہوگی؟ سند بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ دنیا میں اس سند کے ساتھ کوئی دوسری حدیث جانتے ہیں؟‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلمؒ کو یہ حدیث اعلیٰ درجے کے راویوں کی وجہ سے بہت تعجب والی معلوم ہوئی تو امام بخاریؒ نے فرمایا: ’’آپ کی بات درست ہے، مگر یہ سند معلول ہے۔‘‘ امام مسلمؒ یہ سنتے ہی کلمہ طیبہ پڑھنے لگے اور کانپ اٹھے اور کہا کہ مجھے علت بتائیے۔ اس میں کون سی علت ہے؟ امام بخاریؒ نے جواب دیا: ’’جس پر خدا نے پردہ ڈالا تم بھی اس کو پردے میں رہنے دو، یہ حدیث معلول ہے۔‘‘ (علت اصطلاح میں ایسی چھپی خرابی کو کہتے ہیں، جس سے حدیث کمزور ہو جاتی ہے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭