دیگر تحائف کے ساتھ ساتھ میری سہیلی نے مجھے ایک تحفہ دیتے ہوئے کہا: ’’میں نے کئی برسوں پر محیط اپنی دوستی کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ مجھے تمہیں کوئی انتہائی قیمتی، انمول اور یادگار تحفہ دینا چاہئے۔ بہت سوچ و بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ قرآن مجید سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تمہیں یہ تحفہ پیش کر رہی ہوں۔‘‘
میں نے بڑی خندہ پیشانی اور خوشدلی سے اپنی سہیلی کا یہ انمول تحفہ قبول کیا اور اپنے گھر والوں کی نظروں سے چھپا کر اسے اپنی الماری میں رکھ لیا۔ اگر میرے گھر والوں کو پتا چل جاتا کہ میری ایک مسلمان سہیلی نے مجھے قرآن مجید کا تحفہ دیا ہے تو وہ طوفان کھڑا کر دیتے۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے گھر والوں، بلکہ ہماری کمیونٹی میں سے کسی کو اس تحفے کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ میری سہیلی کے جانے کے بعد سے اسلام سے میری رغبت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ میں جب بھی اذان سنتی میرے جسم میں ارتعاش پیدا ہو جاتا، میرے دل میں عجیب طرح کے جذبات موجزن ہوجاتے۔ جب میرے پاس کوئی نہ ہوتا تو میں الماری سے قرآن مجید نکالتی، تحسین اور محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتی، بوسہ دیتی اور دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیتی۔
زندگی کے ایام کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں، جدائی کا غم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو۔ وقت کا پہیہ نہیں رکتا۔ وقت گزرتا رہا۔ اب میرے گھر والے میری شادی کی باتیں کرنے لگے۔ پھر ایک دن میں ’’کنیسہ العذراء مریم‘‘ میں شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔ میں اپنی سہیلی کا انمول تحفہ بھی ساتھ لے گئی، پہلے اسے اپنے گھر والوں کی نظروں سے بچا کر رکھتی تھی۔ اب خاوند سے چھپانے لگی۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا، یہاں تک کہ میرے تین بچے ہو گئے۔ پھر میں نے ایک سرکاری محکمے میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہاں میری ملاقات مسلمان خواتین سے ہوئی۔ حجاب میں لپٹی، انتہائی مہذب خواتین نے میرے دل میں میری سہیلی کی یاد پھر سے تازہ کر دی۔
اب پھر میری یہ کیفیت تھی کہ جیسے ہی قریبی مسجد میں اذان ہوتی، میرے جذبات میں عجیب سی اتھل پتھل شروع ہو جاتی۔ میرے دل میں شدید خواہش اُٹھتی کہ میں بھی دیگر مسلمان خواتین کی طرح اس خدائی پکار پر لبیک کہتے ہوئے نماز ادا کروں۔ لیکن پھر ایک تلخ حقیقت سامنے آجاتی کہ میں ابھی تک عیسائی ہوں۔ ایک انتہائی کٹر اور متعصب عیسائی کی بیوی۔ میرا خاوند چرچ میں ملازمت کرتا تھا۔ چرچ کے پیسوں سے ہی ہمارے گھریلو اخراجات پورے ہوتے تھے۔ وقت گزرتا رہا، مسلمان خواتین سے میری دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ اُن کا رویہ بھی میرے ساتھ بڑا مثالی، مشفقانہ اور ہمدردانہ تھا۔ میں نے کبھی اُن کی طرف سے کسی مذہبی تعصب کا ادنیٰ سا اظہار بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں جو چرچ میں بتایا جاتا تھا، اُس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
میں نے پوری گہرائی سے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ عیسائیت اور اسلام کا تقابلی جائزہ لینا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے خاوند کی عدم موجودگی میں میڈیا پر آنے والے علمائ، مشایخ اور اسلامی اسکالرز کے لیکچرز اور محاضرات سننے شروع کر دیئے۔ میں دن بدن اسلام کے قریب اور عیسائیت سے دور ہوتی جارہی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭