جنت سے کفن بھیجا گیا

یعقوب ابن یوسفؒ فرماتے ہیں:
میرا ایک دوست نہایت متقی اور پرہیزگار تھا۔ مگر اس کی ظاہری حالت سے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ بظاہر وہ عام شخص ہی معلوم ہوتا تھا۔ دس سال سے برابر وہ میرے ہمراہ خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتا تھا اور صوم داؤدی کا پابندی تھا۔ یعنی ایک دن روزہ رکھتا اور ایک دن نہ رکھتا۔ میں متواتر روزہ رکھتا تھا تو مجھ سے کہتا کہ آپ کا نفس تو اس کا عادی ہو گیا ہے، لہٰذا آپ کو ان روزوں کا کیا ثواب ملے گا اور وہ خود پورے عشرہ محرم کے روزے رکھتا تھا۔
پہلے وہ ایک میدان میں رہا کرتا تھا، پھر میرے ہمراہ شہر طرطوس میں چلا گیا اور ایک مدت تک ہم وہاں رہتے رہے۔ اس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور ایسے ویرانے میں اس کا انتقال ہوا کہ وہاں میرے سوا کوئی اس کے پاس نہ تھا، لہٰذا میں وہاں سے چلا تاکہ اس کے لئے کفن وغیرہ کا انتظام کروں، تو میرے کانوں میں آواز آئی کہ لوگ اس کے مرنے کا تذکرہ کر رہے ہیں اور اس کے جنازے کی نماز کے لئے چلے آرہے ہیں۔
چنانچہ جب میں اس کے لئے کفن اور خوشبو وغیرہ لے کر واپس ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس قدر کثیر مجمع ہو گیا ہے، جس میں مجھے اس ویرانے میں میت تک پہنچنا دشوار ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور دل میں کہنے لگا الہٰ العالمین! آخر لوگوں کو اس کے انتقال کی خبر کس نے پہنچائی کہ اس قدر مخلوق جمع ہے اور اس کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کرکے رو رہے ہیں۔
آخر جب بہت مشکل سے میں وہاں تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پہلے سے اس کے پاس ایسا کفن موجود ہے، جو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور اس کفن پر سبز خط میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس شخص کی جزا ہے، جس نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو اپنے نفس کی خواہشات پر ترجیح دی۔ اس نے ہمارے دیدار کو محبوب سمجھا، اس لئے ہم نے اس کی ملاقات کو پسند کیا۔ اس کے بعد ہم نے نماز پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن کر دیا۔
اس کے بعد مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا تو کیا دیکھتا ہوں، وہی شخص ایک سبز گھوڑے پر سوار ہے اور اس کے جسم پر سبز لباس اور ہاتھ میں جھنڈا ہے۔ ایک خوبصورت جوان کے پیچھے ہے، جس کے لباس سے پاکیزہ خوشبو آرہی ہے۔ اس نوجوان کے پیچھے ایک بوڑھا اور ایک جوان اور ہے۔
میں نے اس سے دریافت کیا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ نوجوان ہمارے پیارے نبیؐ ہیں اور ان کے پیچھے جو بوڑھا اور جوان دیکھ رہے ہو، یہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ہیں اور میں ان کا علمبردار ہوں۔
میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ حضرات کہاں تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ کسی کی ملاقات کو تشریف لے جا رہے ہیں۔
پھر میں نے اپنے اس رفیق سے معلوم کیا کہ آخر تم کو یہ بزرگی اور فضیلت کس وجہ سے حاصل ہوئی؟
تو اس نے بتایا کہ میں حق تعالیٰ کی خوشنودی کو اپنی مرضیات پر ترجیح دیتا رہا اور عشرۂ محرم کے روزے رکھتا رہا۔ رب تعالیٰ نے اس کو قبو ل فرما کر مجھے یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ اس کے بعد میں خواب سے بیدار ہوا اور پھر تاحیات میں نے عشرۂ محرم کے روزے ترک نہیں کئے۔
(تفسیر کے بکھرے موتی، بحوالہ قلیوبی)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment