حسن ابدال میں سینکڑوں خاندان غاروں میں رہتے ہیں

محمد زبیر خان
حسن ابدال کے دیہات میں سینکڑوں خاندان غاروں میں رہتے ہیں۔ اس علاقے میں مٹی کے غار پہلی مرتبہ وبائی مرض سے بچاؤ کیلئے 1876ء میں بنائے گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1950ء سے علاقے میں ان غاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور 2010ء کے بعد یہ مقامی لوگوں میں انتہائی مقبول ہو گئے ہیں۔ حسن ابدال کے 84 دیہات کے مکین غاروں میں رہائش پذیر ہیں۔ قدرتی ماحول میں رہنے والے لوگ صحت کے بہت سے مسائل اور بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہر خاندان نے اپنی ضرورت کے مطابق ان غاروں میں کمرے بنا رکھے ہیں۔ غاروں کے آگے کھلے میں صحن بھی موجود ہیں، جہاں کچن، باتھ روم اور ٹوائلٹ کی سہولتیں ہیں۔ مٹی کے ٹیلوں کی کٹائی کر کے بنائے گئے یہ غار انتہائی محفوظ ہیں۔ آج تک ان میں کوئی حادثہ نہیں ہوا اور قدرتی آفات کے دوران بھی یہ محفوظ رہے ہیں۔
ضلع اٹک کا علاقہ حسن ابدال اسلام آباد سے 40 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ حسن ابدال سے ایک سڑک صوبہ خیبر پختون اور دوسری شاہراہ قراقرم، ہزارہ ڈویژن اور شمالی علاقہ جات کی طرف جاتی ہے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے بالکل سامنے چھوٹے بڑے دیہات ہیں، جہاں کے لوگوں نے مٹی کے ٹیلوں اور چھوٹے پہاڑوں کو کاٹ کر رہائش کیلئے غار بنا رکھے ہیں۔
ان غاروں کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام حسن ابدال کے جنرل سیکریٹری ملک شاہد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے حسن ابدال کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب میں پڑھا ہے کہ ان غاروں کی تاریخ تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔ علاقے میں وبائی مرض پھوٹنے پر ایک ہندو کالو شاہ نے 1876ء میں دو غار کھدوائے تھے۔ ایک غار میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ رہتا تھا اور دوسرے میں اپنے مال مویشی رکھتا تھا۔ علاقے کا وہ واحد خاندان تھا، جو وبائی مرض سے محفوظ رہا تھا اور اس کے مویشی بھی محفوظ رہے تھے۔ ملک شاہد کا کہنا تھا کہ مٹی کے ان غاروں کو مقامی زبان میں بھورے اور بھورا کہا جاتا تھا۔ تاہم اب ان کو بھرا بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ غار مٹی کے ٹیلے یا چھوٹے پہاڑوں کو کھود کر بنائے جاتے ہیں۔ ایک غار زیادہ سے زیادہ آٹھ میٹر لمبا اور چار میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ ان کی تعمیر میں اینٹ، پتھر، چونا اور سمینٹ وغیرہ بالکل استعمال نہیں کیا جاتا۔ قدیم دور میں ایک غار کی تعمیر پر چار سے پانچ سو روپے خرچ آتا تھا۔ لیکن اب یہ خرچ ہزاروں میں پہنچ چکا ہے۔ کیونکہ غار تعمیر کرنے والے کاریگروں کی اجرت تین ہزار روپے فی مربع گز تک پہنچ چکی ہے۔ ان غاروں میں صرف لکڑی کے ایک پٹ کا دروازہ ہوتا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ان غاروں کی تعمیر میں بڑی جدت آچکی ہے۔ پہلے ان میں صرف کمرے ہوتے تھے، لیکن اب ان میں صحن رکھا جاتا ہے، جس میں کچن اور ٹوائلٹ بھی ہوتے ہیں۔ مال مویشیوں کیلئے علیحدہ غار یا بھورے بنائے جاتے ہیں۔
ملک شاہد کے مطابق 1885ء میں علاقے کے مسلمان جاگیرداروں منیر ولد بہادرا جاٹ، چوہدری عمیر خان بھٹی ولد ولد نواب خان نے بھی غار بنوائے تھے۔ ان کے داماد چوہدری سمندر خان نے 1972ء تک ان غاروں کو اپنے استعمال میں رکھا تھا۔ اب یہ ان کی اولاد کے پاس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حسن ابدال میں 1950ء میں ان غاروں کی تعداد 50 سے زیادہ نہ تھی۔ تاہم 2000ء تک ان کی تعداد سو سے بڑھ گئی۔ پھر 2010ء تک یہ غار بہت مقبول ہو چکے تھے۔ اب تقریباً علاقے کے ہر خاندان نے اپنا غار/ بھورا بنا رکھا ہے۔ جس کی ملکیت میں کوئی مٹی کا ٹیلہ یا چھوٹا پہاڑ موجود تھا، اس نے غار بنالیا ہے۔ ملک شاہد کا کہنا تھا کہ علاقے میں کئی مرتبہ زلزلے آئے، طوفانی بارشیں ہوئیں، لیکن ان قدرتی آفات میں مٹی کے یہ غار اور ان میں رہنے والے محفوظ رہے۔
علاقے میں موجود ڈسپنسر ڈاکٹر امجد کے نام سے مشہور ہیں اور لائسنس یافتہ میڈیکل اسٹور چلاتے ہیں۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’پورے علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان غاروں میں رہنے والے لوگ بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ خود میرا بھی مشاہدہ ہے کہ غاروں میں رہائش پذیر افراد بڑے امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ علاقے میں کینسر اور دیگر مہلک امراض میں مبتلا لوگ بہت کم ہیں‘‘۔ تحصیل اسپتال حسن ابدال کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان علاقوں کے رہنے والے صحت کے حوالے سے بڑے مسائل سے دوچار نہیں ہیں۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے حسن ابدال سے ایبٹ آباد روڈ کی جانب بائیں طرف ایک لنک روڈ پر ان مٹی کے غاروں کو دیکھنے کیلئے سفر کا آغاز کیا تو نصف کلومیٹر چلنے کے بعد ہی حسن ابدال کے دیہات آگئے۔ شروع میں انتہائی سرسبز علاقہ سامنے آیا، جہاں سڑک کی دونوں جانب لوگ مٹر، شلجم اور مولی کے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے سڑک کے کنارے پر تازہ سبزیاں فروخت کیلئے رکھی ہوئی تھیں۔ مین روڈ سے کچھ فاصلے پر سائیں کالا خان کا عظیم الشان مزار موجود تھا۔ یہ دربار مٹی کے ٹیلے پر بنایا گیا ہے۔ اس سے ملحق بیسمنٹ میں بڑے بڑے غار تعمیر کئے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان غاروں میں سینکڑوں افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔ مزار پر آنے والے زائرین ان غاروں میں ہی قیام کرتے ہیں۔
نمائندہ ’’امت‘‘ جمعہ کے روز صبح نو بجے مزار پر پہنچا تھا۔ اس نے جب ان غاروں کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو مزار کے نگرانوں نے دو ٹوک انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پیر صاحب سمیت تمام مرید آرام کر رہے ہیں اور حفاظتی نقطہ نظر سے خطرناک کتے کھول رکھے ہیں۔ جمعرات کی شب پیر صاحب اور ان کے مرید تمام رات محفل میں مصروف تھے، لہذا اب آرام کر رہے ہیں۔ سائیں کالا خان کے مزار کے غار/ بھورے دیکھنے میں ناکامی کے بعد اس نمائندے نے اپنا سفر جاری رکھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے پر سبز پیر اور نکو نامی دو دیہات آئے۔ ان علاقوں کو دیکھا تو یہ دور دور تک بکھری ہوئی آبادیاں تھیں۔ جہاں مٹی کے چھوٹے بڑے ٹیلے موجود تھے۔ یہاں پکے مکانات بھی تھے، لیکن ہر دوسرے پکے مکان کے مالکان نے اپنا بھورا یا غار ضرور بنایا ہوا تھا۔ مکانوں سے ہٹ کر دوسری جانب بھی بڑی تعداد میں غار موجود تھے، جن میں کئی خاندانوں نے مستقل طور پر اپنی رہائش رکھی ہوئی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment