تحریک لبیک کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ کرانے پر غور

امت رپورٹ
تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب بطور سیاسی پارٹی ٹی ایل پی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف جو کارروائی شروع کی ہے، وہ صرف کریک ڈائون تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن میں ٹی ایل پی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے سمیت دیگر آپشن زیر غور ہیں۔ تحریک لبیک پر پابندی کے لئے پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے، جہاں عدالت عظمیٰ کا دو رکنی بنچ فیض آباد دھرنے کے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کی بطور سیاسی پارٹی رجسٹریشن منسوخ کئے جانے کا فیصلہ آ سکتا ہے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن احکامات پر عمل درآمد میں دیر نہیں لگائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور دیگر ادارے سمجھتے ہیں کہ تحریک لبیک نے جس طرح 25 جولائی کے الیکشن میں کارکردگی دکھائی ہے، اگر اس کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی تو اگلے الیکشن میں وہ توقعات سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دیگر بریلوی جماعتوں کے برعکس اپنا موقف زیادہ شدت سے پیش کرنے والی ٹی ایل پی مزید مضبوط ہو جائے گی اور پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم اس کا پلس پوائنٹ بن سکتا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق بعض حکومتی حلقے تحریک لبیک کی سیاسی رجسٹریشن یا اس پر مکمل پابندی کے حق میں نہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس کا منفی رد عمل آ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا آئین کے خلاف بات کرنے والی کوئی پارٹی پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہو سکتی ہے؟
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک لبیک کی بطور سیاسی پارٹی رجسٹریشن منسوخ کرانے کی تجویز سمیت اس پر مکمل پابندی لگانے کا آپشن بھی زیر غور ہے۔ اس سلسلے میں ٹی ایل پی کے بعض رہنمائوں کے ان بیانات کو جواز بنایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے لاہور دھرنے میں عدلیہ اور فوج کے بارے میں کہے تھے۔ اس سلسلے میں معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کوئی نہ کوئی سخت ایکشن لینے کے موڈ میں ہے ورنہ تحریک لبیک قیادت کو ہاتھ ہی نہ لگایا جاتا۔ اب چونکہ محاذ آرائی کا ماحول بن چکا ہے، لہٰذا پیچھے ہٹنے کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔ آصف ہارون کے بقول فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اس وقت پوری کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو بڑی لمبی فہرست دے رکھی ہے۔ جس میں جماعت الدعوۃ اور دیگر تنظیموں کے مالی معاملات کی تفصیلات انہیں درکار ہیں۔ جبکہ اس لسٹ میں تحریک لبیک پاکستان بھی آ جائے گی۔ کیونکہ مغربی میڈیا اب ٹی ایل پی کو بھی ایک شدت پسند تنظیم کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ دوسری جانب معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی رجسٹریشن منسوخ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہی ہو گا۔ امجد شعیب کے بقول اصل معاملہ ججوں اور فوج کے خلاف ٹی ایل پی قیادت کے بیانات سے بگڑا۔ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کا سلسلہ فی الحال رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ آگے تک جائے گا۔ پارٹی کی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمات بھی قائم کئے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس وقت ٹی ایل پی کو ہونے والی فنڈنگ کی تحقیقات بھی جاری ہیں۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ یہ ملک ان کے بزرگوں نے قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے استحکام اور سلامتی کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتے۔ جبکہ تصادم اور جلائو گھیرائو بھی ان کی پالیسی نہیں۔ تاہم ناموس رسالت پر وہ پہرہ دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے، جو جرم نہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈائون شروع کر رکھا ہے اور اب بھی مسلسل گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ تحریک لبیک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کے گھر کو پولیس نے تاحال محاصرہ میں لے رکھا ہے۔ رہائش گاہ کی قریبی مسجد رحمت اللعالمین کے اطراف بھی پولیس کا مسلسل گشت جاری ہے۔ ملک بھر میں جاری کریک ڈائون میں گرفتار کی گئی کی پارٹی قیادت کو جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سندھ اور کراچی کے عہدے داروں کے گھروں پر بھی چھاپے مارے جارہے ہیں اور جو گرفتار ہوئے انہیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔ بہت سے پارٹی عہدیداروں کے بارے میں کنفرم نہیں ہو رہا ہے کہ انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے یا وہ روپوش ہیں۔ متعدد رہنماؤں اور کارکنان کے بارے میں گزشتہ روز عدالت جانے پر معلوم ہوسکا کہ ٹی ایل پی سندھ کے امیر علامہ غلام غوث بغدادی اور سندھ شوری کے رکن علامہ بلال غازیانی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شہرکے مختلف تھانوں میں رکھے گئے درجنوں کارکنان کو عدالت میں پیش کرکے ایک، ایک ماہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے تحریک لبیک کے قائم مقام امیر علامہ شفیق امینی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ملک بھر کے کارکنان سے رابطے میں ہیں۔ ہم ملکی اداروں کے بارے میں ایک لفظ بھی اس لئے نہیں بول رہے کہ اس سے دشمن خوش ہوگا۔ جبکہ ہم خود دشمن کے خلاف لڑنے والوں میں سے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کریک ڈاؤن اب تک چل رہا ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ حکومت، علامہ خادم حسین رضوی کی گاؤں والی رہائش گاہ سے اسلحہ برآمد کرکے اسے علامہ صاحب کے سر ڈال دیں تاکہ ان کے خلاف کوئی مضبوط کیس بنایا جاسکے۔ پھر بھی ہم کارکنان کو ویڈیو پیغامات جاری کررہے ہیں کہ کوئی کارکن جذباتی نہ ہو۔ ہماری پہلی ترجیح یہی ہے کہ تصادم کی صورتحال پیدا نہ ہو، تاہم حکومت کی جانب سے حالات ایسے ہی پیدا کئے جارہے ہیں‘‘۔
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی رہنما جندل علی قادری کا کہنا تھا کہ ’’لاہور میں علامہ خادم حسین رضوی کے گھر پر اب بھی پولیس کا محاصرہ ہے اور رہائش گاہ کے قریب واقع مسجد رحمت اللعالمین کے اطراف بھی پولیس مسلسل گشت کر رہی ہے، جس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے ہم لوگ دہشت گرد ہیں۔ ہمارے کارکنان کو زخمی کیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں اٹھائے گئے۔ گزشتہ روز کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ ٹی ایل پی رہنما مفتی عابد مبارک کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کو اس طرح کے اقدامات وہا ں اٹھانے چاہیئں جہاں ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف کو باعزت رہا کیا جاتا ہے، مگر اسلام کی بات کرنے والوں کی تذلیل کی جاتی ہے، جو قادیانی لابی کی ایما پر کی جا رہی ہے۔ ہم اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ علمائے کرام کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا جارہا ہے اور راؤ انوار جیسوں کو وی آئی پی پروٹوکول میں پیش کیا جاتا رہا۔ یہ دہرے رویے ہی انتشار کا سبب بنتے ہیں، جن سے ہر ممکن طور پر بچنا ہوگا‘‘۔ ناصر منہاس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’میں ان لوگوں کو مبارک باد دینا چاہوں گا جنہوں نے تحفظ ناموس شان رسالت کی خاطر جیل کی صعوبت برداشت کی۔ جن لوگوں کو جیل لے جایا گیا ہے، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے نفاذ نظام مصطفی کی بات کی تھی۔ جبکہ جن لوگوں نے سول نافرمانی کے نعرے لگائے تھے ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں نے سرکاری املاک پر حملہ کیا تھا، ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ مگر اسلام کی بات کرنے والوں کو دبایا جارہا ہے۔ یہ ملک اور معاشرے دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ آئین ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم احتجاج کرسکتے ہیں اور دھرنا دے سکتے ہیں۔ اس آئینی و قانونی حق سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے‘‘۔ تحریک لبیک کے رہنما نواز الہدی کا کہنا تھا کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی کو جس طرح گھر سے لے کر گئے اور اس کے بعد ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا ہے، اس سے لگتا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے‘‘۔ ٹی ایل پی سندھ کے ترجمان محمد علی قادری کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہمیں جیلیں اور گولیاں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا سکتیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment