حسن اخلاق نے دل بدل دیا

حصہ سوم
ایک دن میرا خاوند چرچ میں تھا۔ بچے اسکول میں تھے۔ میں کسی میکنیکل عمل کے تحت اُٹھی، الماری کے پاس گئی، کچھ دیر تذبذب کا شکار رہی، پھر اپنی سہیلی کا انمول تحفہ نکالا، میرے ہاتھوں میں ارتعاش اور جسم پر لرزہ طاری تھا، میں نے ہمت کر کے مصحف پکڑا اور زندگی میں پہلی مرتبہ اسے کھول کر پڑھنے لگی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس پہلی آیت میں میری نظر پڑی اُس نے ہی میرے دل و دماغ کا سارا غبار اُتار دیا:
ترجمہ ’’بلاشبہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی طرح ہے۔ خدا تعالیٰ نے اُنہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اُنہیں کہا: ہو جائو تو وہ ہو گئے۔‘‘ (آل عمران: 59)
یہ آیت پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا۔ اچانک میں نے چابی کے گھومنے کی آواز سنی۔ میرا خاوند چرچ سے واپس آچکا تھا۔ میں نے جلدی سے قرآن مجید چھپایا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اپنے خاوند کی طرف چل پڑی۔
اگلے دن میں ڈیوٹی پر گئی تو میرے ذہن میں بیسیوں سوال گردش کر رہے تھے۔ کیا عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں جیسا کہ ہمارے پادری دعویٰ کرتے ہیں یا عیسیٰؑ خدا کے معزز رسول ہیں۔ اُن کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی۔ معجزانہ پیدائش خدا کا بیٹا ہونے کی دلیل نہیں بنتی، کیونکہ اس سے پہلے آدمؑ ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے کوئی اس وجہ سے اُن کو خدا کا بیٹا نہیں کہتا۔
قرآن مجید کی ایک اور آیت نے میرے سارے شکوک رفع کر دیئے:
ترجمہ: ’’نہ اُس نے کسی کو جنم دیا نہ اسے کسی نے جنم دیا اور نہ ہی کوئی اُس کا ہمسر ہے۔‘‘ (سورۃ الاخلاص)
عیسیٰؑ خدا کے بیٹے نہیں، بلکہ اپنی والدہ کے ذریعے آدمؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اب میں ان خطوط پر سوچنے لگی کہ میرے اندر جو کشمکش چل رہی ہے۔ میں جس دوراہے پر کھڑی ہوں۔ اس کا انجام کیا ہوگیا۔ مجھے ہر راستہ ایک ہی منزل اور ابدی حقیقت کی طرف جاتا ہوا نظر آتا: ’’خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔‘‘
پھر میں سوچنے لگی: کیا میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے اسلام کا علانیہ اظہار کر دوں؟ میرے گھر والوں کا مؤقف کیا ہوگا؟ میرے خاوند کا ردعمل کیسا ہوگا؟ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ میرے پاس رہیں گے یا مجھ سے چھن جائیں گے؟ کئی ہفتے گزر گئے۔
میں اسی ادھیڑ بن میں رہی کہ کیا کروں۔ میں کام کرتے کرتے، کوئی بات کرتے کرتے کہیں گم ہو جاتی۔ میری سہیلیاں بھی پریشان تھیں کہ اسے کیا ہوا ہے۔ میں تو ہر وقت ہشاش بشاش اور ہوشیار رہا کرتی تھی۔ بڑی دلجمعی سے سارے کام کرتی۔ لیکن اب کوئی کام مجھ سے ڈھنگ کا نہیں ہو رہا تھا۔ میری مسلمان سہیلیاں بار بار مجھ سے پوچھتیں کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے، کسی مشکل کا سامنا ہے؟ ہمیں بتائو، ہم مل کر اُس مشکل کا حل نکال لیں گی۔ تم ہمیں اپنا ہی سمجھو وغیرہ وغیرہ۔
یہ محض زبانی ہمدردی نہیں تھی۔ میں اپنی سہیلیوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ خلوص، محبت اور اپنائیت اُن کے چہروں سے جھلک رہی تھی۔ ان دنوں میرے دل میں اُن کی محبت اور قدر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آخر وہ دن ہی آگیا، جس میں میری زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہونے والا تھا۔ اب کفر پر مزید جمے رہنے پر میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔ میں سوچتی اگر اسی ادھیڑ بن میں مجھے موت آگئی تو حق کو پہچاننے کے باوجود میں کفر پر مر گئی تو میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟! اس دن جیسے ہی میں نے ظہر کی اذان سنی، میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میری حالت تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ مجھے ایسے لگا کہ اب اگر میں نے خود پر مزید جبر کیا تو ذہنی دبائو کی وجہ سے مجھے برین ہیمبرج ہو جائے گا۔ میں اچانک بلند آواز سے چلائی اور کلمہ شہادت پڑھنے لگی۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment